وزیر داخلہ امیت شاہ کے بار بار کے اس اعلان کہ ملک گیر این آر سی (شہریوں کا قومی رجسٹر) تیار ہو گا اور پھر پارلیمنٹ سے 11 دسمبر 2019 کو سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) کے منظور ہونے کے بعد ملک کے مسلمانوں میں ایک قسم کا خوف و ہراس بھی ہے اور کسی حد تک تیاری بھی ہے۔
جب آسام میں ہزاروں کروڑ روپے کے اخراجات سے این آر سی تیار کیا گیا اور اس میں سے 19 لاکھ افراد باہر ہو گئے تو پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ ان 19 لاکھ میں سے 13 لاکھ ہندو ہیں تو حکومت اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر ایک قسم کی گھبراہٹ طاری ہو گئی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت اور بی جے پی کا خیال تھا کہ این آر سی سے صرف مسلمان باہر ہوں گے ہندو نہیں۔ لیکن جب ہندووں کی تعداد زیادہ نکلی تو حکومت کو اپنی سیاست ناکام ہوتی نظر آئی۔
ترمیمی شہریت قانون کیوں لایا گیا
اس کے بعد ہی وزیر داخلہ امت شاہ نے سی اے اے کا بل پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جسے دونوں ایوانوں سے منظور کرا لیا گیا۔ اس قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، جینیوں، پارسیوں، بودھوں اور عیسائیوں کو یہاں کی شہریت دے دی جائے گی۔ اس سے مسلمانوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ اس بات نے مسلمانوں اور سیکولر ہندوؤں کو چونکنے پر مجبور کر دیا۔
ایسا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جب پورے ملک میں این آر سی کا عمل شروع ہو گا تو جہاں بہت سے غریب اور ناخواندہ مسلمان اپنے والدین اور اپنے بارے میں قانونی دستاویزات پیش کرنے سے معذور ہوں گے تو وہیں بہت بڑی تعداد میں ہندو بھی کاغذات نہیں دکھا سکیں گے۔
اس بارے میں حالات پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس صورت میں ہندوؤں کو تو سی اے اے کے تحت شہریت دے دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں دی جائے گی۔ پھر انھیں یا تو ڈٹینشن سینٹرز یا حراستی مراکز میں بھیج دیا جائے گا یا انھیں حق رائے دہی اور دیگر حقوق و مراعات سے محروم کر دیا جائے گا۔
اس اندیشے کے پیش نظر مسلمانوں میں کاغدات کی تلاش کے لیے بھاگ دوڑ شروع ہو گئی۔ لوگ میونسپل دفاتر، ضلعی ہیڈ کوارٹرز، تحصیلوں اور بلاک ڈیولپمنٹ آفسز کے چکر لگانے پر مجبور ہو گئے۔ وہ زمین جائیداد کے کاغذات، تعلیمی اسناد، پوسٹ آفسز کی دستاویزات، پرانے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات کی تلاش میں جٹ گئے۔
'ہم کہاں سے کاغذ لائیں'
مولانا محمد ذکیر الدین (65 سال) تقریباً 40 برسوں سے دہلی میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔ یہاں ان کے بچوں کی تعلیم ہوئی اور تمام قسم کے کاغذات یہیں کے بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کو ڈر ہے کہ اگر ملک گیر این آر سی ہوا اور 1987 سے قبل کے والدین کے کاغذات مانگے گئے تو وہ کہاں سے دکھائیں گے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے والدین غریب اور ناخواندہ تھے۔ ان کے پاس زمین جائیداد نہیں تھی۔ میں ان کے کاغذات کہاں سے لاؤں گا“۔
لیکن بہر حال کچھ دستاویزات تو چاہئیں ہی، لہٰذا وہ 29 فروری کو بذریعہ ٹرین اپنے آبائی وطن ضلع گوڈا، جھارکھنڈ روانہ ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کوئی امید نہیں ہے کہ ان کے والدین کی کوئی دستاویز ملے گی لیکن ایک موہوم امید کے ساتھ وہ اپنے آبائی وطن جا رہے ہیں۔
جانے سے قبل انھوں نے ضلع گوڈا میں ایک مسلم وکیل سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا ضلع یا تحصیل سے کوئی کاغذ بن سکتا ہے اور اگر بن سکتا ہے تو اس کی کیا اہمیت ہو گی۔ وہ وکیل کی ہدایت پر وہاں جا چکے ہیں۔
'کچھ مل گیا کچھ باقی ہے'
ماسٹر محمد اقبال (55 سال) جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسکول میں زرعی سائنس کے استاد ہیں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور متمول خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے آبا و اجداد کے پاس کافی زمینیں اور باغ تھے۔ جن میں سے کچھ فروخت ہو چکے ہیں اور کافی جائیداد اب بھی موجود ہے۔
محمد اقبال کاغذات کے حصول کے لیے تین بار اپنے آبائی وطن ضلع سدھارتھ نگر، اترپردیش جا چکے ہیں۔ انھوں نے زمینوں کی کھتونی ضلع ہیڈ کوارٹر سے حاصل کی ہے اور دوسرے کاغذات تلاش کر رہے ہیں۔ ان کو اپنے آبا و اجداد کے کچھ پرانے کاغذات چاہئیں جو ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکے ہیں۔
محمد اسلم (45 سال) بھی دہلی میں مقیم ہیں۔ وہ یہاں ایک لیب ٹیکنیشین ہیں۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی کاغذات کی تلاش میں دو بار اپنے وطن ضلع بستی، اتر پردیش جا چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انھیں مقامی سرکاری اہل کاروں سے کوئی خاص مدد نہیں ملی تو انھوں نے انٹرنیٹ پر زمین کے کاغذات کی تلاش شروع کر دی۔
محمد اسلم کہتے ہیں کہ اتر پردیش میں بہت سی چیزیں تو ڈیجیٹائز کر دی گئی ہیں لیکن ابھی بہت سے کاغذات انٹرنیٹ پر اپ لوڈ نہیں کیے گئے ہیں۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر زمین کی کھتونی تلاش کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ لیکن وہ اپنی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
اسپیلنگ غلط ہونے کا خطرہ
آسام میں بہت سے لوگوں کے نام اسپیلنگ میں غلطی کی وجہ سے این آر سی سے باہر ہو گئے۔ ناموں میں اسپیلنگ کی غلطی ایک عام بات ہے۔ مثال کے طور پر لفظ محمد کئی طرح سے لکھا جاتا ہے۔ دو لفظی ناموں میں غلطی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ آسام میں ایسے کئی لوگوں کو محض اس وجہ سے حراستی مرکز میں جانا پڑا کہ کسی کاغذ میں دو میں سے ایک نام لکھا تھا اور کسی میں دو۔
اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ”بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری، جموں“ میں برسرکار ایک استاد نے اپنا نام راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اسپیلنگ مسٹیک کا ہے۔ ان کے والد جو کہ ایک تعلیم یافتہ شخص اور شاعر و ادیب تھے، اپنا نام کئی طرح سے لکھتے تھے۔ ان کی طب کی سند میں ان کے نام کے ساتھ انصاری لگا ہوا ہے۔ جب کہ ان کے زمین کے کاغذات میں انصاری نہیں ہے اور نام بھی آدھا ادھورا ہے۔ اس لیے وہ کافی پریشان ہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ضلع اور تحصیل کے دفاتر میں سندِ پیدائش بنوانے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔ بجنور کے ایک شخص کے مطابق چونکہ ان کی عمر ساٹھ سال ہے اس لیے ان کی سند پیدائش نہیں بن سکی۔ وہاں کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ ان سے کم از کم بیس برس بڑے کسی شخص کی گواہی چاہیے جو یہ بتا سکے کہ ہاں ان کی پیدائش ان کے سامنے ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب میں 80 سال کے بزرگ کو کہاں سے تلاش کر کے لاؤں جو میری پیدائش کی گواہی دے سکے۔
ضلع و تحصیل ہیڈکوارٹرز میں بھیڑ
اتر پردیش کی تحصیل مہنداول میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل محمد اجمل نے بتایا کہ زمین کی کھتونی انٹرنیٹ پر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بڑی دشواریوں کا سامنا ہے۔ یہ کاغذ صرف ضلع ہیڈ کوارٹر سے مل سکتا ہے۔ سنت کبیر نگر ضلع کے ہیڈ کوارٹر پر بیسیوں ہزار درخواستیں داخل کی جا چکی ہیں۔ ان کے گاؤں کے چند افراد نے چار ماہ قبل درخواست دی تھی لیکن ابھی تک ان کا نمبر نہیں آیا۔
سانتھا بلاک ڈیولپمنٹ آفس، ضلع سنت کبیر نگر، اتر پردیش کے ایک پردھان سہیل رحمانی اور ایک آزاد صحافی عبدالباقی خاں ندوی نے بتایا کہ بلاک میں ایک پریوار رجسٹر (خاندان کا رجسٹر) ہوتا ہے جس میں خاندان کے افراد کے نام ہوتے ہیں۔ اس سے قبل ناموں کے اندراج سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن جب سے سی اے اے اور این آر سی کا معاملہ اٹھا ہے، پریوار رجسٹر میں نام درج کرانے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
کچھ لوگ اپنا نام لکھوا پاتے ہیں تو کچھ نہیں۔ اس کے لیے آدھار کارڈ ضروری ہے۔ اس کے بغیر نام درج نہیں ہوتا۔ قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ آدھار کارڈ، جس پر کارڈ ہولڈر کے بارے میں تمام تفصیلات ہوتی ہیں، رہائش کا کارڈ ہے شہریت کا نہیں۔
عتیق انصاری (62 سال) بنارس کے ایک سابق ہندی صحافی ہیں۔ وہ ایک سماجی کارکن بھی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے شہر میں بھی کاغذات بنوانے والوں کی بھیڑ دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اس سلسلے میں سرکاری دفاتر میں جا کر لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ لیکن سرکاری اہل کاروں کا رویہ بہت مایوس کن ہے۔
مساجد کا کردار
ملک کے مختلف علاقوں میں مساجد سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ لوگ اپنے کاغذات درست کروا لیں۔ بنگلور (کرناٹک) میں تو کئی مساجد کو این آر سی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں لوگوں کو اس سلسلے میں بیدار کیا جاتا ہے اور کاغذات کے الگ الگ سیٹ بنا کر لوگوں کی رہنمائی کی جاتی ہے۔
مسجد اصلاح، ذاکرنگر، جامعہ نگر، نئی دہلی میں امام و خطیب قاری عارف جمال نے بتایا کہ اس مسجد سے بھی لوگوں کو کاغذات کے سلسلے میں بیدار کیا جا رہا ہے۔ کئی ایسے وکلا کو جو اس میدان میں کام کر رہے ہیں مدعو کر کے لیکچر دلوائے گئے ہیں۔ انھوں نے مصلیوں کو بتایا کہ انھیں کون کون سے کاغذ تیار کر کے رکھنے چاہئیں اور وہ کاغذات کہاں سے بنیں گے۔
ان کے مطابق چونکہ مسلمانوں میں کم تعلیم یافتہ یا ناخوادہ افراد زیادہ ہیں اس لیے لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہے کہ انھیں کون کون سے کاغذات تیار رکھنے چاہئیں۔
جب سے پارلیمنٹ سے سی اے اے منظور ہوا ہے پورے ملک میں اور بالخصوص مسلمانوں میں ایک بے چینی کی کیفیت ہے۔ بہت سے ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ این آر سی سے ان کو کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ اسی لیے کاغذات کی تیاری کا کام صرف مسلمانوں میں چل رہا ہے۔
ملک گیر احتجاج جاری
کئی سیاسی جماعتوں نے اعلان کر دیا ہے کہ اگر این آر سی ہوتا ہے تو وہ حکام کو کوئی بھی کاغذ نہیں دکھائیں گے۔ انھوں نے اپنے کارکنوں کو بھی اس کی ہدایت کر رکھی ہے۔
پورے ملک میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ ان احتجاجوں کی قیادت مسلمانوں اور کالجوں و یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں ہے۔ مسلمانوں میں خاص طور پر خواتین پیش پیش ہیں۔ اس وقت کم از کم دو سو مقامات پر خواتین سی اے اے کے خلاف دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔
خواتین کے ان دھرنوں کی قیادت بظاہر شاہین باغ کی خواتین کر رہی ہیں، جو کہ جنوبی دہلی کے اوکھلا گاؤں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مضافات میں واقع ہے۔ شاہین باغ کے دھرنے کو عالمی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ دھرنے پر بیٹھی خواتین کا مطالبہ ہے کہ حکومت سی اے اے واپس لے اور این آر سی نہ کرانے کا اعلان کرے۔ لیکن حکومت کا بار بار کہنا ہے کہ وہ سی اے اے واپس نہیں لے گی۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی پہنچ گیا ہے اور اس سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ شاہین باغ کی خواتین نے پندرہ دسمبر سے جس اہم شاہراہ کو بند کر رکھا ہے اسے کھلوایا جائے کیونکہ سڑک بند ہونے سے عوام کو زبردست دشواریوں کا سامنا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں تین مذاکرات کار مقرر کیے جن کی یہ ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ خواتین سے بات کر کے سڑک کو کھلوائیں۔ انھوں نے ایک ہفتے تک خواتین سے بات چیت کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت سی اے اے واپس لینے کا اعلان کر دے تو ہم سڑک سے اٹھ جائیں گے۔
اب این پی آر
اسی دوران حکومت نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) تیار کروانے کا اعلان کر دیا ہے۔ آبادی کا یہ رجسٹر ایک قسم کی مردم شماری ہے۔ مردم شماری ہر بیس سال پر ہوتی ہے۔ پچھلی مردم شماری 2010 میں ہوئی تھی۔
این پی آر کا کام یکم اپریل سے شروع کیا جائے گا۔ یہ پورے ملک میں ہو گا۔ اس میں پچھلے این پی آر کے مقابلے میں مزید کئی دستاویزات کی تفصیلات طلب کی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اس میں والدین کی تاریخ و جائے پیدائش معلوم کی جا رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ این پی آر این آر سی کا پہلا قدم ہے۔ خود حکومت بھی متعدد بیانات میں کہہ چکی ہے کہ این پی آر این آر سی کا پہلا قدم ہے۔
متعدد ریاستی اسمبلیوں نے قرارداد منظور کر کے کہا ہے کہ وہ اپنے یہاں این آر سی اور این پی آر کا عمل شروع نہیں کریں گے۔ ان میں حکومت کی حلیف کئی ریاستیں بھی شامل ہیں۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی، جو کہ حکمراں این ڈی اے میں شامل ہیں، ایوان میں ایک قرارداد منظور کروائی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہار میں 2010 کے ضابطے کے مطابق این پی آر کرایا جائے گا۔