رسائی کے لنکس

جنوبی کوریا: عدالت نے صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • جنوبی کوریا کے دارالحکومت سول کی مغربی ڈسٹرکٹ کورٹ نے منگل کو صدر یون سک یول کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔
  • حکام نے یون سک یول کو تین بار تحقیقات کے لیے سمن جاری کیے۔ تاہم ان کی عدم پیشی کے بعد حکام نے عدالت سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کیے ہیں۔
  • جنوبی کوریا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی موجودہ صدر کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے ہیں، مقامی میڈیا

ویب ڈیسک — جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے مواخذے کا سامنا کرنے والے صدر یون سک یول کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں۔

یون سک یول کو رواں ماہ کے آغاز میں چند گھنٹوں کا مارشل لا لگانے پر بغاوت کے الزامات کے تحت مواخذے کا سامنا ہے۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سول کی مغربی ڈسٹرکٹ کورٹ نے منگل کو یون سک کی گرفتاری کے وارنٹس جاری کیے۔

مقامی میڈیا کے مطابق جنوبی کوریا کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی موجودہ صدر کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہوں۔

جنوبی کوریا کی پارلیمان نے دسمبر کے وسط میں صدر یون کے مواخذے کی تحریک منظور کی تھی جس کے ساتھ ہی ان کے صدارتی اختیارات معطل ہو گئے تھے جب کہ ملک کی آئینی عدالت ان کے خلاف مقدمے کا جائزہ لے رہی ہے۔

مواخذے کے ساتھ ساتھ حکومت نے صدر سے تحقیقات کے لیے ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی بنائی ہے جو یون سک یول سے بغاوت اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی تحقیقات کر رہی ہے۔

حکام نے یون سک یول کو تین بار تحقیقات کے لیے سمن جاری کیے۔ تاہم ان کی عدم پیشی کے بعد حکام نے عدالت سے ان کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کیے ہیں۔

یون سک یول کی قانونی ٹیم نے تحقیقات میں معاونت سے انکار کر دیا تھا۔ ان کی قانونی ٹیم کا مؤقف رہا ہے کہ پہلے مواخذے کی کارروائی مکمل کی جائے۔ کسی بھی فوجداری معاملے کو مواخذے پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔

ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ حکام کی جانب سے صدر کو کب گرفتار کیا جا سکتا ہے اور عدالت کے جاری کردہ اس وارنٹ پر عمل درآمد کے لیے ادارے کس حد تک جارح ہو سکتے ہیں۔

صدر کی سیکیورٹی پر مامور سروس نے اب تک تحقیقاتی حکام کو عدالت سے منظوری کے باوجود یون سک یول کی رہائش گاہ یا صدارتی دفتر میں داخل ہونے سے روکا ہے۔ اس کے لیے مختلف وجوہات بتائی گئی ہیں جن میں سیکیورٹی اور فوجی حوالہ جات شامل ہیں۔

جنوبی کوریا میں قواعد کے مطابق صدر کو عہدے پر رہتے ہوئے قانونی چارہ جوئی سے استثنا حاصل ہے۔ البتہ ملک سے غداری یا بغاوت کی صورت میں صدر کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنے کا قاعدہ موجود ہے۔

جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے رواں ماہ تین دسمبر 2024 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ ملک میں 1980 کے بعد جمہوری دور میں اس طرح کا اقدام نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم جنوبی کوریا کے 300 رکنی پارلیمان نے صدر کے اس فیصلے کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا جس کے سبب چند گھنٹوں کے بعد صدر یون کو مارشل لا اٹھانا پڑا۔

یون سک یول کا کہنا تھا کہ مارشل لا کا نفاذ اپنے مخالفین کو ایک سخت پیغام دینے کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے اپوزیشن کو شمالی کوریا کے لیے نرم گوشہ رکھنے اور شمالی کوریا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والا بھی قرار دیا تھا۔

صدر یون کے مواخذے کا عمل بھی غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہے۔

ملک کی آئینی عدالت میں صدر کے مواخذے کا مقدمہ موجود ہے جس نے 180 دن میں ان کی برطرفی کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہے۔ لیکن آئینی عدالت میں ججوں کی نو میں سے تین نشستیں خالی ہیں۔

اس صورتِ حال میں عدالت کے باقی چھ ججوں کو مواخذے کو برقرار رکھنے پر اتفاق کرنا ہوگا۔

آئینی عدالت میں نئے ججوں کے تقرر کا معاملہ بھی تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ ملک کی اپوزیشن نے موجودہ صدر کے اختیارات معطل ہونے کے بعد ان کی جگہ بننے والے قائم مقام صدور کو نئے ججوں کے تقرر کی منظوری نہ دینے پر بھی مواخذے کی دھمکی دی ہے۔

اس کے بعد یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ جنوبی کوریا میں سیاسی تعطل مزید بڑھے گا اور ملک کی معیشت کو اس سے مزید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

گزشتہ ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں جنوبی کوریا کی کرنسی ’وون‘ 16 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ اس کے بعد یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ ایندھن کی درآمد پر اخراجات بڑھیں گے اور اس سے صارفین کے لیے بھی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔

XS
SM
MD
LG