|
پانچ سال کی عمر سے تتلیاں پکڑنے کے شوق نےکینیا کے ایک شخص کو 74 سال کی عمر تک بیالیس لاکھ تتلیاں جمع کر کے تتلیوں کا ایک بہت بڑا محقق اور تتلیوں کی ہزاروں قسم کے ایک کلیکشن کا مالک بنا دیا جو شاید افریقہ کا ایسا سب سے بڑا کلیکشن ہے ۔
اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب کینیا کے دارا لحکومت کے مضافات میں ایک پانچ سالہ بچے اسٹیو کولنز کو دوسرے عام بچوں کی طرح رنگ برنگی تتلیاں پکڑنے اور انہیں اپنی کتابوں میں محفوظ کرنےکا شوق پیدا ہوا۔
یہ شوق اس وقت مشغلہ بن گیا جب اس کے والدین نے ،جنہیں ان کے کچھ دوستوں نے تتلیاں پکڑنے کا ایک جال تحفے میں دیا تھا ، کانگو کے ایک دورے کے بعد تتلیاں جمع کرنے میں کولنز کی حوصلہ افزائی کی ۔ اس جال کے استعمال نےکولنز کو زیادہ تعداد میں تتلیاں پکڑنے میں مدد دی اور یوں وہ اس کام کے ماہر بن گئے۔
پھررنگ برنگی تتلیوں کو پکڑ کر اپنی کتابوں اور کاپیوں میں خشک کر کے جمع کرنے کا یہ مشغلہ پندرہ سال کی عمر تک کولنز کے لیے تتلیوں پر ریسرچ کے جنون میں بدل گیا اور انہوں نے دوسرے ملکوں مثلاً نائیجیریا جا کر تتلیاں جمع کرنے پر اپنا فارغ وقت صرف کرنا شروع کر دیا ۔
پھر کولنز نے جو پیشے کے اعتبار سے ایک زرعی ماہر ہیں ، اپنے بیس سالہ کیرئیر کے دوران اپنا تمام فارغ وقت تتلیوں پر ریسرچ کے لیے وقف کردیا ۔ انہوں نے 1997 میں تتلیوں پر ریسرچ کا ایک ادارہ ،ایفریقین بٹر فلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کیا ۔ 1998 اور 2003 کے درمیان انہوں نے اسے ایک تعلیمی مرکز کے طور پر چلایا جس دوران انہوں نے اسے عام پبلک کے لیے کھول دیاتھا ۔
کولنز کے پاس اس وقت افریقہ بھر سے جمع کی گئی بارہ لاکھ خشک کی گئی تتلیاں ایسی ہیں جنہیں انہوں نے فریمز میں بڑی نفاست سے پن کر کے اور الماریوں میں قطاروں کی صورت میں محفوظ کر کے رکھا ہے جب کہ 30 لاکھ دوسری تتلیوں کو انہوں نے لفافوں میں محفوظ کر کے رکھا ہوا ہے۔
ان کے ایک اعشاریہ پانچ ایکڑ زمینی رقبے پر ،سینکڑوں متنوع اقسام کے درخت اور پھولدار جھاڑیاں ایک بہت شاندار جنگل کی شکل اختیار کر چکی ہیں، جہاں سینکڑوں زندہ تتلیاں پھولوں پر رقص کرتی منڈلاتی پھرتی ہیں اور کبھی کبھی وہ کولنز کے ہاتھ پر بیٹھ جاتی ہیں ۔
کولنز نے بتایا کہ ان خشک کی گئی تتلیوں کو تاریک جگہوں پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پھر انہیں جہاں رکھا جائے وہ ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں انہیں دوسرے کیڑے ، پیرا سائٹس یا حشرات الارض نہ کھا سکیں ۔ اور ہم اس چیز کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ انہیں محفوظ رکھنے کے لئے سال میں ایک بار کیڑے مار ادویات کا استعمال کریں۔
ایک ماہر ماحولیات جولین بیلس نے، جو افریقہ سے اسپیشلائز کر رہے ہیں اور آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی میں ایک وزیٹنگ پروفیسر ہیں، بتایا کہ انہوں نے بیس سال میں کولنز کے لئے تتلیاں جمع کرنے میں مدد کی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ان لاکھوں تتلیوں میں سے زیادہ تر مکمل طور پر نایاب ہیں کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار افریقہ میں طویل دورانیوں کی خشک سالی اور شدید سیلابوں کے نتیجے میں جنگلات اور تتلیوں کے مسکن تباہ ہورہے ہیں۔
بیلس کہتے ہیں کہ کولنز کی تتلیوں کی اس کلیکشن کو دنیا بھر کے لیے قابلِ رسائی بنانے کے لیے اسے ڈیجیٹائز کرنے کی ضرورت ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ اسے جو کوئی بھی سنبھالے اسے ایک ایسا مستحکم ادارہ ہونا چاہیے جس کے پاس کافی فنڈز ہوں اور جو محفوظ ہو ۔
واشنگٹن کے اسمتھسونین انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر حشرات الارض ،تقریباً 30 سال قبل کولنز سے ملے تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے کلیکشنز ساٹھ سال سے زیادہ عرصے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا ،’’ جب آپ کو نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں یا آپ کے پاس مختلف ٹیکنالوجیز آجاتی ہیں یا آپ کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے ہیں تو آپ در حقیقت ان ٹھوس نمونوں تک مسلسل رسائی حاصل کر کے مزید معلومات یا اپنے سوالات کے جواب تلاش کر سکتے ہیں ۔
کولنز کو فکر یہ ہے کہ اب وہ زیادہ عرصہ تک اپنی ریسرچ جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سب سے قیمتی تتلی کی قیمت 8 ہزار ڈالر ہے ، اور ان کو فکر ہے کہ وہ چوری ہو سکتی ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ وہ اپنے اس تتلی گھر کو کسی فرد یا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو فروخت کردیں گے ۔
ان کے ادارے،ایفریقین بٹر فلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کا خرچ بہت زیادہ ہے ۔تتلیوں اور پتنگوں کی کلیکشن اور ریسرچ سے متعلق ویب سائٹ، ’ سوسائٹی آف افریقہ‘ پر اس انسٹی ٹیوٹ کا سال 2009 میں پوسٹ کیا گیا سالانہ بجٹ دو لاکھ ڈالر پر مشتمل تھا ۔
کولنز کا اندازہ ہے کہ ان نمونوں اور دوسرے اثاثوں کی لاگت 80 لاکھ ڈالر ہے ۔
انہوں نے کہا، یہ کئی دہائیوں سے میرا مشغلہ رہا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے میں اس پر کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔ میں اس وقت یہ یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہوں کہ جب میں اس دنیا میں نہ رہوں تو میری جمع شدہ تتلیوں کایہ خزانہ ، محفوظ ہاتھوں میں ہو۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم