|
امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پیر کو کہا ہےکہ یرغمالوں کی رہائی پر کام کرنے والے ایلچی ایڈم بوہلر کی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ غزہ میں براہ راست ملاقات ایک مخصوص صورت حال پر واحد ملاقات تھی اور ثمرات سامنے آنا باقی ہیں۔
رائٹرز کے مطابق روبیو نے، جو یوکرین جنگ کے خاتمے پر بات چیت کے لیے سعودی عرب میں ہیں، سفر کے دوران نامہ نگاروں کو بتایا کہ خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کا کام یرغمالوں کی رہائی پر کام کرنا ہے اور بوہلر نے اجازت ملنے اور حوصلہ افزائی کرنے پر براہ راست ان لوگوں سے بات کی جو یرغمالوں کو قبضے میں لیے ہوئے ہیں اور یہ اس صورت حال میں کی جانے والی واحد ملاقات تھی۔
واضح رہے کہ امریکہ کی کئی دہائیوں سے یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ ایسے گروپوں سے براہ راست بات چیت سے گریز کرتا ہے جنہیں اس نے دہشت گرد قرار دیا ہوتا ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ابھی ایڈم بوہلر کی ملاقات کے ثمرات سامنے نہیں آئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا (حماس سے) ملاقات کرنا کوئی غلط بات تھی۔ روبیونے کہا کہ آئندہ سےصدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطی کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف ان امور پر، اور اسی طرح قطر میں جنگ بندی کے بارے میں مذاکرات کریں گے۔
بوہلر نے اتوار کو سی این این کو بتایا تھا کہ ان کی حماس سے ملاقات"مددگار " رہی اور اسرائیل کے ٹی وی چینل این 12 کو ایک انٹر ویو میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی توجہ بقیہ تمام 59 یرغمالوں کو رہا کروانے اور جنگ کے خاتمےپر مرکوز ہے۔
ادھر حماس کے ایک سینئر اہلکار نے اتوار کو خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ بوہلر اور حماس کے درمیان ملاقات ایک امریکی اسرائیلی شہری کی رہائی پر مرکوز تھی۔
اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کی جانب پیش رفت
اسرائیل سے 7 اکتوبر 2023 کو اغوا کیے گئے یرغمالوں کی رہائی اسرائیل اور حماس کے دوران جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا اہم جزو تھی۔ اس دوران اسرائیل نے یرغمالوں کی رہائی کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو اپنی جیلوں سے رہا کیا۔
دونوں فریقوں میں جنگ بندی امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی سے ممکن ہوئی تھی لیکن اب اسے ایک نازک موڑ کا سامنا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر بات چیت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اکٹھے ہوں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پیر کو رپورٹ دی کہ اسرائیل کی مذاکراتی ٹیم بات چیت میں حصہ لینے کے لیے قطر روانہ ہوگئی۔
اسرائیل اور حماس کے جنگ بندی کے اگلے مرحلے میں پیش رفت پر اختلافات سامنے آئے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے پر فوراً مذاکرات کیے جائیں جبکہ اسرائیل کا کہنا ہےکہ پہلے مرحلے کو مزید آگے بڑھایا جائے۔
خیال رہے کہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہوگیا تھا۔
اسرائیل نے غزہ کو خوراک اور بجلی کی سپلائی روک دی
مذاکرات کاروں کی روانگی سے قبل اسرائیل نے غزہ کو بجلی کی سپلائی منقطع کردی۔ اس اقدام کو حماس پر دباؤ ڈالنے کا ایک طریقہ کار سمجھا جا رہا ہے۔
قبل ازیں، اسرائیل نے غزہ میں خوراک کی امداد کی ترسیل بھی روک دی تھی۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ خوراک کی ترسیل کے روکنے سے غزہ میں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کچھ بیکریاں بند ہو گئی ہیں اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
حکام نے یہ بھی کہا کہ بجلی کی سپلائی ختم ہونے سے لوگ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی مہاجرین کے لیے کام کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے نے کہا ہے کہ 17 ماہ کی تباہ کن جنگ کے بعد بجلی اور خوراک کی عدم دستیابی سے لوگوں کی جانوں کو خطرہ لاحق ہو گا۔
حماس نے ان اسرائیلی اقدامات کو غزہ کے لوگوں کے لیے اجتماعی سزا قرار دیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق غزہ کی 23 لاکھ کی آبادی میں اکثریت امداد پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جنگ میں جانی نقصان
حماس کے اسرائیل پر 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں سینکڑوں اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے علاوہ جنگجوؤں نے 251 کے قریب افراد کو یرغمال بھی بنالیا تھا۔
یرغمال بنائے گئے افراد اور ان کے خاندانوں کو کرب اور انتظار کے مشکل دور سے گزرنا پڑا جبکہ بہت سے مغویوں کی اسیری کے دوران موت بھی ہوگئی۔
اسرائیلی حکام کے مطابق اس حملے میں 1400 لوگ ہلاک ہوئے جن میں اکثریت شہریوں کی تھی۔
امریکہ کے علاوہ بعض دوسرے مغربی ملکوں نے بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں غزہ کے کئی حصے کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ہیں۔
حماس کے زیر اہتمام غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق اب تک 48 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اسرائیل کو غزہ میں بڑے پیمانے پر جانی اورمالی نقصان پر اقوام متحدہ اور اور کئی ملکوں کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے جنگ کے دوران تقریباً 17 ہزار عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا۔ تاہم، حکام نے اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں دئے ہیں ۔
(اس خبر میں شامل زیادہ تر معلومات اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم