رسائی کے لنکس

حکومتی پیکج تاجروں کی توقعات کے برعکس قرار


چیمبر آف کامرس نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکج کو تاجروں کی توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)
چیمبر آف کامرس نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکج کو تاجروں کی توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان کی وفاقی حکومت نے کرونا وائرس کے پیش نظر خراب معاشی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت معیشت کے مختلف سیکٹرز کو 1200 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

اس سوال پر کہ کیا یہ سبسڈی کافی ہو گی اور کیا اس سے جمود کا شکار معیشت کا پہیہ چلانا ممکن ہو گا؟، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چیمبر آف کامرس کے صدر آغا شہاب نے وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکج کو تاجروں کی توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آغا شہاب کا کہنا تھا کہ تاجروں کو توقع تھی کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود 10 فی صد سے کم کی جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اسی طرح معاشی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے برآمدکنندگان کو فوری ریبیٹ اور دیگر رعایت دینے کا وعدہ تو کیا گیا ہے لیکن ان کے خیال میں حکومت کے لیے یہ وعدہ پورا کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔

لاہور میں لاک ڈاؤن: کوئی مطمئن، کوئی ناراض
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:42 0:00

آغا شہاب کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا سے پیدا ہونے والے معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کو مینیوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے مزید خصوصی رعایت کا اعلان کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ بہت سے برآمد کنندگان کے آرڈرز منسوخ ہو گئے ہیں۔

ان کے بقول اگر یہ صنعتیں اس مشکل وقت میں کام کرتی رہیں تو اسی سے حکومت کو ٹیکس کی وصولی اور پھر تجارتی خسارے کو قابو پانے میں مدد ملے گی جب کہ لوگوں کا روزگار بھی برقرار رہے گا۔

ان کے خیال میں اس طرح کرونا وائرس کی وبا سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

آغا شہاب کا کہنا تھا کہ اس وقت آنے والے حالات کے بارے میں کوئی بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں کیوں کہ وبا کے پھیلاؤ سے معاشی سرگرمیاں مسلسل متاثر ہو رہی ہیں اور عالمی تجارت بھی گراوٹ کا شکار ہے لیکن اب تک واضح نہیں کہ یہ صورت حال کس حد تک خراب ہوگی۔

ان کا خیال ہے کہ آنے والے دنوں میں کاروبار کے لیے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مشکلات ہوں گی۔

ہاتھوں کو صابن سے 20 سیکنڈ تک مل کر دھوئیں
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:35 0:00

دوسری جانب معاشی ماہر اور تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کے مطابق ایک جانب شرح سود کی کمی حوصلہ افزا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں بھی شرح سود میں کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت کا پہیہ چلنے میں مدد ملے گی۔ کیش فلو میں آسانی ہوگی۔

ان کے بقول شرح سود میں کمی سے بعض دفعہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ برآمدات بھی بڑھ جاتی ہیں جب کہ دوسری جانب تیل کی قیمتیں کم ہونے سے مہنگائی کی شرح میں بھی کمی کی توقع ہے۔

سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ معاشی پیکج میں پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو ہوگا۔ قیمتوں میں کمی یا کم از کم استحکام آئے گا۔ اسی طرح برآمدی صنعتوں کو فوری ٹیکس کی فراہمی کے لیے 100 ارب روپے جاری کرنے سے بھی برآمد کنندگان کو کسی حد تک ریلیف ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمال اور میڈیم سائز انڈسٹریز کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز مختص کرنا بھی حکومت کی جانب سے خوش آئند اقدام ہے۔

کوئٹہ میں لاک ڈاؤن، نمازِ جنازہ کے لیے بھی اجازت لینا ہو گی
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:37 0:00

سمیع اللہ طارق کے مطابق ہمارے ہاں چونکہ کم ترین تنخواہ 17 ہزار روپے مقرر ہے تو اس لحاظ سے حکومت کی جانب سے 70 لاکھ غریب اور مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے فی خاندان 3 ہزار روپے امداد بہت کم نظر آتی ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد لاک ڈاؤن اور اس سے معاشی سرگرمیوں میں تعطل کے باعث ملک کی جی ڈی پی کا دو سے تین فی صد نقصان ہو چکا ہے۔ جو 10 سے 15 ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے یہ پیکج تو ناکافی نظر آتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ حکومت نے جس معاشی پیکج کا اعلان کیا ہے وہ اس کی استطاعت کو ظاہر کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نقصان میں اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والی مندی شامل نہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس معاشی پیکج کا اثر یقینی طور پر وہاں بھی مثبت انداز میں پڑے گا۔

کروناوائرس: لاہور میں لاک ڈاؤن کا پہلا روز
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:12 0:00

واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے منگل کے روز معاشی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے فوری طور پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 15 روپے فی لیٹر کمی، مزدور طبقے کے لیے 200 ارب روپے، میڈیکل ورکرز اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50، 50 ارب روپے جب کہ 100 ارب روپے برآمدی صنعت اور 100 ارب روپے تاجروں کو ری فنڈ کی مد میں دینے کے لیے مختص کیے ہیں۔

اس کے علاوہ کھانے پینے کی مختلف اشیاء پر ٹیکسز میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔

حکام کے مطابق اس معاشی پیکج کا کل حجم 1200 ارب روپے بنتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG