پاکستان میں کرونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ایسے میں جہاں بعض صوبوں میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے، وہیں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے وہ ملک میں مکمل لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں بالخصوص حزبِ اختلاف ملک میں آئندہ چند روز کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت غیر معمولی صورتِ حال کا سامنا ہے اور ایسے میں وفاق اور صوبوں کی جانب سے الگ الگ اقدامات و اعلانات کے سبب عوام میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔
سندھ کے بعد پنجاب نے بھی صوبے میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جب کہ قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف ملک بھر میں یکساں لاک ڈاؤن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو نے ایسی صورتِ حال پر متفقہ حکمتِ عملی اور قومی اتفاقِ رائے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
ملک میں کورونا وائرس سے اب تک چھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ متاثرہ مریضوں کی تعداد 800 سے تجاوز کر گئی ہے۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے وفاقی حکومت کے موقف پہ تنقید پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کہتے ہیں کہ یہ ہمارے سیاسی کلچر کی بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے مخالف سیاسی رہنما کے ہر اقدام کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کے بقول موجودہ صورتِ حال میں بھی ایسا ہی کیا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی اعلٰی سطح کا فیصلہ ساز فورم ہے جہاں کرونا کی وبا پر قابو پانے کے لیے فیصلے کیے گئے۔ لیکن ان کے بقول صوبۂ سندھ کے وزیرِ اعلٰی نے خود سے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرلیا۔
خیال رہے کہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو کہ وفاق میں حزبِ اختلاف کی دوسری بڑی جماعت ہے۔
البتہ پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ صوبہ سندھ کے وزیرِ اعلٰی نے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو صورتِ حال سے آگاہ کیا جس کے بعد صوبائی سطح پر تحریکِ انصاف سمیت ہر جماعت لاک ڈاؤن کے فیصلے کی حمایت کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی ملک کی سیاسی قیادت سے مشاورت کرنی چاہیے۔
وفاق اور صوبوں کے الگ الگ فیصلوں پر تجزیہ کار اور کالم نگار مظہر برلاس کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو خود مختاری دی گئی ہے کہ وہ اپنے معاملات خود چلائیں۔
وفاقی وزیر غلام سرور خان بھی کہتے ہیں کہ مراد علی شاہ سندھ کے انتظامی سربراہ ہیں اور انہیں یہ آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ صوبے کی بہتری میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کریں۔ لیکن ان کے بقول قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ملک میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات اور بحران کی صورتِ حال میں مفادات کی سیاست ملک و معاشرے کے لیے مفید نہیں ہوسکتی اور قومی معاملات میں اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے بقول وفاقی حکومت کرونا وائرس کے خطرے کی حساسیت کو سمجھ ہی نہیں رہی اور اس حوالے سے حکمتِ عملی اور فیصلوں میں جس قدر تاخیر ہوگی اسی قدر اس سے نمٹنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وی او اے سے گفتگو میں محمد زبیر کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعلٰی سندھ نے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو صوبے میں لاک ڈاؤن کے فیصلے پر اعتماد میں لیا اور ہر جماعت ان کے فیصلے کی حمایت کر رہی ہے۔
محمد زبیر کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو بھی سیاسی قیادت سے مشاورت کے ذریعے حکمت عملی اپنانی چاہیے۔
تجزیہ کار مظہر برلاس کے مطابق صوبہ سندھ میں لاک ڈاؤن کے فیصلے کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے کیوں کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے جہاں آئندہ 15 روز کاروبار بند رہے گا۔
اسی خدشے کا اظہار وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ خسرو بختیار نے بھی کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ کراچی کی بندر گاہ بند ہے جس کے سبب پورٹ پر موجود درآمدی سامان کی کلیئرنس میں تاخیر ہو رہی ہے۔
انہوں نے وزیرِ اعلٰی سندھ سے کہا کہ وہ کھاد بنانے والی فیکٹریوں کو بھی کھولنے کی جازت دیں تاکہ کسانوں کو بروقت کھاد میسر آسکے۔
سابق گورنر سندھ محمد زبیر کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں سیاسی اتفاقِ رائے نہ ہونا نقصان دہ ہے اور اگر وزیرِ اعظم لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں ہیں تو سیاسی جماعتوں کو اپنے اس موقف پر اعتماد میں لیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کنڈی کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی سیاسی قیادت سے عدم مشاورت کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی اس بحرانی صورتحال میں قومی اتفاقِ رائے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک شدید خطرے میں گھرا ہوا ہے جو کہ ہنگامی اور فوری اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔
تجزیہ کار مظہر برلاس کے مطابق ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے اور ایسے میں سیاسی قیادت میں اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ ان کے بقول اس ضمن میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بہتر قدم ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت کے ایک صفحے پر متفق ہونے سے قوم کو بھی ایک واضح پیغام جائے گا۔