"میرے پاس اس بڑے مقابلے میں شرکت کے لیے صرف تین ہفتے تھے۔ مقابلے سے دو ہفتے قبل میرا کندھا زخمی ہو گیا تھا۔ میرے ٹرینر نے مجھے کہا کہ آپ یہ نہیں کر سکیں گے لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔"
یہ الفاظ ہیں کک باکسنگ کے ایک مقابلے میں گزشتہ ہفتے امریکی حریف کو محض 33 سیکنڈ میں ناک آؤٹ کرنے والے پاکستانی باکسر عزت اللہ کے جن کا تعلق پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ سے ہے۔
عزت اللہ کاکڑ نے امریکی ریاست الباما کے شہر برمنگھم میں ہونے والی بیئر نکل فائٹنگ چیمپئن شپ (بی کے ایف سی) میں امریکی حریف کرس سارو کو شکست دی تھی جو عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہیں۔
کک باکسنگ کا کھیل بغیر گلوز اور گیئرز کے کھیلا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اسے خطرناک کھیل سمجھا جاتا ہے اور اس میں کھلاڑیوں کا زخمی ہونا معمول کی بات ہے۔
عزت اللہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ "میں پاکستان کی کک باکسنگ ٹیم کا حصہ رہا ہوں اور ایران میں ہونے والے مقابلے میں سلور میڈل بھی جیت چکا ہوں جب کہ دبئی اور روس کے بھی دورے کر چکا ہوں۔"
عزت اللہ کا کہنا تھا کہ "باکسنگ ان کا ہمیشہ سے ایک خواب رہا ہے۔ لیکن انہیں حکومت اور متعلقہ حکام کی جانب سے مناسب سپورٹ نہیں ملی اس لیے انہوں نے مایوس ہو کر پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
اُن کے بقول "میرے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا اس لیے میں بہتر مستقبل کی تلاش میں اور اپنا خواب پورا کرنے کے لیے غیر قانونی طریقے سے ملائیشیا، انڈونیشیا اور پھر آسٹریلیا چلا گیا۔ میں نے ایسے سفر کا انتخاب کیا جس میں بہت کم لوگ زندہ بچ پاتے ہیں۔ اس دوران سخت حالات کا سامنا کیا لیکن میں نے پھر بھی اپنا خواب نہیں چھوڑا۔"
عزت اللہ کاکڑ پناہ گزیں کی حیثیت سے پاپوا نیو گنی کے ایک حراستی مرکز میں سات سال رہے لیکن انہوں نے اپنی ٹریننگ نہیں چھوڑی۔
اُنہوں نے 2019 میں حراستی مرکز میں رہتے ہوئے پیسفک کنگ باکسنگ ٹائٹل جیتا اور پاکستان کا جھنڈا لہرایا۔
عزت اللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ حراستی مرکز میں رہتے ہوئے ان کے بہت سے ساتھی پناہ گزینوں کو ذہنی صحت کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے کچھ نے خود کشی بھی کر لی۔ لیکن مشکلات میں رہنے کے باوجود وہ واحد کھلاڑی تھے جو لوگوں کو ٹریننگ دے رہے تھے۔
ایک پناہ گزین کی حیثیت سے میڈیا نے ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اس کے بعد وہ 2020 میں فلپائن میں ایک باکسنگ مقابلوں میں حصہ لینے گئے اور نام کمایا۔ واپس پاپوا نیو گنی آنے پر امریکی پناہ گزینوں کے ادارے نے ان سے رابطہ کیا اور گزشتہ سال جون میں انہیں امریکہ میں سیاسی پناہ ملی۔
اُن کے بقول "میں چارٹرڈ فلائٹ میں امریکی ریاست نارتھ کیرولائنا آیا۔ میں چھوٹی موٹی جاب کر رہا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ اپنی ٹریننگ بھی جاری رکھی تھی۔ پھر میں ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈلفیا آیا اور بطور ٹرک ڈرائیور کام شروع کیا جس کے بعد بیئر نکل فائٹنگ چیمپئن شپ کے ساتھ میرا کانٹریکٹ ہو گیا۔"
بیرا نکل فائٹنگ چیمپئن کے بانی اور صدر ڈیویڈ فلڈمین نے ایک پیغام میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ عزت اللہ کی کہانی بہت دلچسپ ہے، انہوں نے لگن اور دل سے یہ مقابلہ جیتا۔
اُن کے بقول ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس چیمپئن شپ کے ساتھ رہیں گے اور بہترین کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
عزت اللہ نو سال اپنے خاندان سے دور رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے علاقے اور لوگوں کے لیے بہت کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن انہیں تعاون کی ضرورت ہے۔
اُن کے بقول "بلوچستان کے جس پسماندہ علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں نہ تو اسٹیڈیم ہیں اور نہ ہی کھیلوں کی دیگر سہولیات لہذٰا نوجوانوں کے لیے حالات خراب ہیں۔"
اُن کا کہنا تھا کہ "میرا کک باکسنگ کا ریکارڈ بہت اچھا ہے اور بھی بھرپور محنت کر رہا ہوں، لیکن اگر حکومت میرا ساتھ دے تو میں پاکستان کے لیے مزید بہت کچھ کر سکتا ہوں۔"
فلاڈلفیا کی بیئر نوکل فائٹنگ چیمپئن شپ (بی کے ایف سی) 1889 سے امریکہ میں قانونی طور پر منظور شدہ ہے۔ اس میں وہی کھلاڑی حصہ لے سکتے ہیں جو تربیت یافتہ اور باقاعدہ پروفیشنل ہوں۔