شہناز کمال نے جب باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھا تو انہیں معاشرے کے مخالفانہ رویّوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شہناز کمال کے بقول "میری مخالفت بہت زیادہ جگہوں پر ہوئی۔ سسرال والوں نے بھی کی اور گھر والے بھی مخالف تھے۔"
ان کا کہنا تھا کہ جتنے بھی رشتہ دار تھے سب نے میرے باکسنگ میں آنے کی مخالفت کی۔ سوائے شوہر کے کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ میرے شوہر نے میرا ساتھ دیا۔
یہ کہانی ہے پاکستان کی واحد خاتون باکسنگ کوچ شہناز کمال کی جو پشاور سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر کام کر رہی ہیں۔
پاکستان کے بعض علاقوں میں کھیلوں کو صرف مردوں کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ اگر خواتین کھیلوں کے میدان میں کارکردگی دکھانا چاہیں تو انہیں روکا جاتا ہے۔ بالخصوص خیبر پختونخوا کے قدامت پسند قبائلی علاقوں میں ایسی کہانیاں عام ہیں۔
شہناز کمال بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں۔ وہ جب کھیلوں کی دنیا میں آئیں تو لوگوں کی مخالفت کے سبب انہیں اپنا گاؤں بھی چھوڑنا پڑا تھا۔ لیکن جب وہ ایک مقام پر پہنچ گئیں اور انٹرنیشنل کوچ بن گئیں تو پھر سب ان کی تعریف کرنے لگے۔
اس سفر کے دوران شہناز کے شوہر کمال خان ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔
کمال خان خود بھی خیبر پختونخوا کی باکسنگ فیڈریشن کے سیکریٹری ہیں۔ کمال خان نے اپنی برادری کے رویے کی بھی پرواہ نہیں کی۔
ان کے بقول "جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں اپنی بیٹی کو باکسر بناوں۔ تو میری بیٹی کے لیے ایک خاتون کوچ بھی ہونی چاہیے تھی۔ میں پٹھان معاشرے کو چیر پھاڑ کر آگے چلا گیا اور اپنی بیوی کو باکسنگ میں لے آیا۔"
سال 2008 میں شہناز کمال نے اپنے گھر کی چھت پر ہی اپنے بچوں کے ساتھ کچھ لڑکیوں کو بھی باکسنگ کی ٹریننگ دینا شروع کی۔ کچھ لڑکیاں چھوڑ کر چلی گئیں لیکن کچھ نے ٹریننگ جاری رکھی۔ شہناز سے تربیت حاصل کرنے کے بعد کچھ لڑکیاں ساؤتھ ایشین گیمز میں بھی گئیں اور میڈلز بھی جیتے۔
شہناز کمال کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو بھی باکسنگ کی تربیت دیتی ہیں۔
ان کی ایک بیٹی ہادیہ کمال بھی باکسر ہیں اور گزشتہ سال بین الصوبائی مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیت چکی ہیں۔ اپنی والدہ کے برعکس انہیں کھیلوں کے میدان میں کارکردگی دکھانے کے لیے خاصا سہل ماحول ملا۔
ہادیہ کمال کے بقول "مجھے مشکلات بالکل بھی نہیں ہوئیں کیوں کہ میرے والدین نے مجھے فری ہینڈ دیا۔ میری والدہ اور والد دونوں باکسنگ سے وابستہ ہیں۔ میرے چار ماموں بھی باکسر ہیں۔ اس وجہ سے مجھے زیادہ سپورٹ ملی۔"
شہناز کمال اب 600 کے قریب لڑکوں اور 150 لڑکیوں کو باکسنگ کی تربیت دے رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ حکومت اگر انہیں سپورٹ کرے تو پاکستان میں باکسنگ کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ "ابھی ہم نے زیرو سے شروع کیا تھا اور اب 80 سے 90 فی صد آگے جا چکے ہیں۔ لیکن اگر لوگ ہمیں سپورٹ کریں، معاشرہ اور حکومت سپورٹ کرے تو ہم ان شاء اللہ 100 فی صد نتائج لے کر آئیں گے۔"