رسائی کے لنکس

رپورٹر ڈائری: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں چیئرمین نے کہا کہ جیل نہ گیا تو کام کرتا رہوں گا


پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان نے بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔
پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی جنید اکبر خان نے بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی۔
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو حکومت کی جوابدہی کا اہم فورم سمجھا جاتا ہے لیکن الیکشن کے بعد 11 ماہ تک اس کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوسکا۔
  • حکومت بننے کے گیارہ ماہ بعد کمیٹی کے پہلے اجلاس میں کمیٹی روم پوری طرح بھرا ہوا تھا۔
  • گزشتہ تین ادوار میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پی اے سی کے چیئرمین بنائے گئے لیکن اس بار یہ روایت برقرار نہیں رہی۔
  • مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے میثاقِ جمہوریت میں پی اے سی کا سربراہ اپوزیشن لیڈر کو بنانے پر اتفاق کیا تھا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے دیے گئے ناموں میں سے عمر ایوب کا انتخاب نہیں کیا گیا۔
  • حکومتی رکن طارق فضل چودھری نے چیئرمین کو مبارکباد دیتے ہوئےکہا کہ دعا ہے آپ چار سال پورے کریں جس پر جنید اکبر نے کہا کہ کیا آپ جیل نہ جانے کی گارنٹی دے رہے ہیں؟
  • پہلے اجلاس میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے بتایا کہ تحقیق کے لیے جمع کی گئی پانچ ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ نہیں ہوسکی اور اس میں سے ٹیکس بھی کٹ چکا ہے۔

اسلام آباد پاکستان میں بدھ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ( پی اے سی )کا پہلا باضابطہ اجلاس ہوا تو کمیٹی روم نمبر دو مکمل بھرا ہوا تھا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں مجموعی طور پر سات کمیٹی رومز ہیں جن میں کمیٹی روم نمبر دو سب سے بڑا ہے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس اسی میں ہوتے ہیں۔

کمیٹی روم نمبر دو میں لکڑی کی گول میز کے علاوہ پرانی کرسیوں کی جگہ نئی کرسیاں آگئی ہیں ۔ایک اور تبدیلی یہ تھی کے کمیٹی روم میں بڑی اسکرین لگائی گئی تھی۔

ایک سال قبل ہونے والے عام انتخابات سے منتخب ہونے والی اسمبلی کا گیارہ ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی(پی اے سی) کا پہلا اجلاس منتعقد ہورہا تھا جس کی کوریج کے لیے صحافی بڑی تعداد میں کمیٹی روم موجود تھے۔

حکومت کی کارکردگی اور قانون سازی وغیرہ کے لیے پارلیمنٹ میں جو مختلف کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں ان میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اہم ترین کمیٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ فورم سرکاری اداروں کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بناتا ہے۔

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان پی اے سی چیئرمین کے نام پر اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس کمیٹی کو کام شروع کرنے میں 11 ماہ کا عرصہ لگ گیا۔

قومی اسمبلی میں قائد ایوان یعنی وزیر اعظم کے انتخاب کے30 دنوں کے اندر قومی اسمبلی کے رول نمبر 200 کے تحت کمیٹیوں کی تشکیل مکمل کرنا اسپیکر کی ذمے داری ہوتی ہے۔ تاہم ان رولز پر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیاں تنازع کے باعث عمل نہ ہوسکا ۔

کمیٹی کی تشکیل کرتے ہوئے میثاقِ جمہوریت میں اس سے متعلق کیے گئے اتفاق رائے پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔ 2008 میں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کے تحت پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر کو بنانے کی پارلیمانی روایت کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔

گزشتہ تین ادوار میں قائم رہنے والی یہ روایت موجودہ اسمبلی میں برقرار نہیں رکھی گئی۔

'آپ جیل نہ جانے کی گارنٹی دے رہے ہیں؟'

حکومت کے اصرار پر پی ٹی آئی نے پی اے سی چیئرمین کے عہدے کے لیے تین نام تجویز کیے جن میں اپوزیشن لیڈر عمرایوب، شیخ وقاص اکرم اور جنید اکبر خان شامل تھے۔

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پی ٹی آئی کے جنید اکبر خان کے نام پر اتفاق ہوا جنہیں24 جنوری کو چیئرمین پی اے سی منتخب کیا گیا جس کے بعد بدھ کو کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔

اجلاس شروع ہونے کے بعد ارکان کمیٹی چیئرمین کو مبارک باد دینے لگے۔ اس وقت کمیٹی کا ماحول دلچسپ ہوگیا جب مسلم لیگ ن کے قومی اسمبلی میں چیف وہپ اور کمیٹی کے رکن طارق فضل چوہدری نے جنید اکبر کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا،" میری دعا ہے آپ چار سال تک چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنے رہیں؟"

اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا،"کیا آپ مجھے یہ گارنٹی دے رہے ہیں کہ میں جیل نہیں جاؤں گا۔ آپ نے جیل میں نہ ڈالا تو ہی چیئرمین رہ کر کام کرسکوں گا۔"

جنید اکبر کے اس جواب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں قہقے گونج اٹھے جس پر طارق فضل چودھری نے کہا کہ یہ کمیٹی آپ کا تحفظ کرے گی اور آپ چار برس پورے کریں گے۔

بیک لاگ کا چیلنج

اجلاس کی کارروائی کے ابتدا میں کمیٹی کو متعلقہ سیکرٹیریٹ نے بریفنگ میں بتایا گیا کہ گزشتہ پی اے سی 36 ہزار آڈٹ اعتراضات زیر التواء چھوڑ کر گئی ہے۔ زیر التواء آڈٹ اعتراضات کی مالیت 202 ٹرلین روپے بنتی ہے۔

آڈٹ رپورٹ 23-2022 اور 24-2023 کا ایک بھی آڈٹ اعتراض زیر غور نہیں لایا جا سکا ہے۔ ان دو برسوں کے 6971 آڈٹ اعتراضات زیر التوا ہیں۔

پی اے سی کے رکن سید نوید قمر نے کہا کہ یہ بہت اہم کمیٹی ہے۔ تمام ارکان چیئرمین کو سپورٹ کریں گے۔

پی اے سی چیئرمین جنید اکبر نے کہا کہ گزشتہ برسوں کے پرانے آڈٹ اعتراضات پر ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

رکن پی اے سی محسن عزیز کا کہنا تھا کہ گزشتہ کمیٹی نے بدقسمتی سے بہت از خود نوٹس لیے اور اپنے اختیارات سے ہٹ کر بہت سے کام کیے۔ گزشتہ پی اے سی کے ناجائز اقدامات اور فیصلوں کو منسوخ کرنا ہوگا۔

رکن پی اے سی خالد مگسی نے کہا کہ اس کمیٹی کو میرٹ پر کام کرنا چاہیے۔

ایک اور رکن ثناء اللہ مستی خیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک ہزار ارب روپے سالانہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔

کمیٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ پی اے سی کے لیے آڈٹ پیراز کا بیک لاگ بہت زیادہ ہے۔

انہوں نے پہلی ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہر وزارت ماہانہ دو مرتبہ محکمانہ آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی)کا اجلاس ضرور کرے۔ ڈی اے سی کا اجلاس نہ کرنے والی وزارت پی اے سی اجلاس میں شرکت نہ کرے۔

آڈیٹر جنرل پاکستان نے بتایا کہ ہر آڈٹ رپورٹ کے 70 سے 80 ہزار آڈٹ اعتراضات میں سے تین سے چار ہزار ہی پی اے سی کے سامنے لائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 وزارتیں ایسی ہیں جن میں چیف فنانشل افسران تعینات نہیں ہیں۔ کسی بھی وزارت کا اپنا چیف انٹرنل آڈیٹر نہیں ہے۔

بریفنگ کے دوران عرصہ دراز سے پی اے سی کو کور کرنے والے ایک صحافی نے کہا کہ اس کمیٹی کے لیے بیک لاگ ختم کرنا ایک بڑا چلینج ہوگا ۔

کام کا آغاز

پی اے سی نے وزارت قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کی آڈٹ رپورٹ 24-2023 زیر غور لاتے ہوئے اپنے کام کی ابتدا کی۔

اس وزارت کے آڈٹ اعتراضات پر بریفنگ دیتے ہوئے آڈٹ حکام نے بتایا کہ پی این سی اے کی جانب سے مالی سال 23-2022 تک نو کروڑ 28 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ پی این سی اے نے آڈیٹوریم، اوپن اسپیس اور آرٹ گیلری کے کرایے کی مد میں حاصل ہونے والی رقم جمع نہیں کرائی۔

اس پر سیکرٹری قومی ورثہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پی این سی اے خودمختار ادارہ ہے جس کی آمدن پی این سی اے خود رکھتا ہے۔یہ معاملہ وزارت خزانہ کو بھجوایا تھا۔

حکام وزارت خزانہ نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے قانون میں ترمیم ضروری ہے۔

رکن کمیٹی سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ جب تک قانون میں ترمیم نہیں ہوتی یہ پیسہ قومی خزانے میں جانا چاہیے۔

اس کے بعد پی اے سی نے قانون میں ترمیم تک آڈٹ اعتراض پر فیصلہ مؤخر کر دیا ۔

تحقیق کے لیے مختص رقم خرچ نہیں ہوسکی

پی اے سی کے اجلاس میں وزارت قومی صحت کی آڈٹ رپورٹ برائے 24ـ-2023 بھی زیر غور آئی ۔آڈٹ رپورٹ میں وزارت قومی صحت میں نو ارب 61 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) نے کمیٹی کو بتایا کہ تحقیق کے لیے مختص پانچ ارب 93 کروڑ روپے استعمال نہیں ہوسکے اور یہ رقم بینک اکائونٹ میں پڑی رہی۔ تحقیق کے لیے رقم ادویہ ساز کمپنیوں سے لی جاتی ہے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ رقم بینک میں پڑی رہنے کی وجہ سے اس پر 56 کروڑ روپے ایڈوانس ٹیکس کی مد میں کاٹ لیے گئے تھےجن کی واپسی کے لیے معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اس پر سیکریٹری قومی صحت نے کہا کہ ڈریپ کے قواعد میں خامیاں ہیں جنہیں دور کیا جا رہا ہے۔ قواعد میں خامیوں کے باعث تحقیق پر رقم خرچ نہیں ہو سکی۔

چیئرمین پی اے سی نے وزارتِ صحت کے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مکمل معلومات کے ساتھ کمیٹی اجلاس میں آئیں۔ پہلا اجلاس ہے نرمی دکھا رہے ہیں آئندہ سختی سے نمٹیں گے۔

پی اے سی کا دوسرا اجلاس 18 فروری کو ہوگا جس میں پیٹرولیم اور نارکوٹکس کنٹرول وزارتوں کے اڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جائے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG