رسائی کے لنکس

پاکستان میں زرعی ٹیکس بڑھانے سے متعلق قوانین منظور: کیا مقاصد حاصل ہو سکیں گے؟


  • بعض ماہرین اور تجزیہ کار ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ زرعی ٹیکس کی شرح بڑھانے کے مقاصد پورے نہیں ہو پائیں گے ۔
  • رواں سال پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے کے لیے تقریباً 13 ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف پورا کرنا ہے جس میں 400 ارب روپے شارٹ فال کا سامنا ہے۔
  • ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب 'چارٹر آف ڈیمو کریسی' میں تحریر کیا ہے کہ صرف ایک سال یعنی مالی سال 2021 میں زرعی ٹیکس جمع نہ کرنے کے باعث اشرافیہ کو 105 ارب روپے کی سبسڈی ملی۔
  • ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اگر ایمان داری سے ٹیکس کلیکشن کی جائے تو محض زراعت کے شعبے سے 850 ارب روپے سالانہ جمع کیے جاسکتے ہیں۔
  • فارمر ایسوسی ایٹس پاکستان کے ڈائریکٹر کے مطابق زراعت پر ٹیکس لگانا غیر فطری اور بلاجواز ہے ۔ یہ دنیا کے صرف چند ملکوں کے سوا کہیں نہیں جب کہ بھارت اپنے کسانوں کو 100 ارب ڈالر تک کی سبسڈی فراہم کرتا ہے۔

کراچی -- پاکستان کی چاروں صوبائی اسمبلیوں نے زرعی ٹیکس بڑھانے سے متعلق قانون سازی مکمل کر لی ہے جسے وزیرِِ اعظم شہباز شریف نے سراہتے ہوئے وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔

اس معاملے پر شش و پنج کے شکار صوبہ سندھ نے بھی پیر کو زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا بل منظور کر لیا تھا جب کہ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پہلے ہی زرعی ٹیکس لگانے کی منظوری دے چکے ہیں۔

بعض ماہرین اور تجزیہ کار ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ زرعی ٹیکس کی شرح بڑھانے کے مقاصد پورے نہیں ہو پائیں گے اور ساتھ ہی اس سے پاکستان کے لیے فوڈ سیکیورٹی جیسے مسائل شدت اختیار کر سکتے ہیں۔

چاروں صوبائی اسمبلیوں نے یہ قانون سازی ایسے وقت میں مکمل کی ہے جب آئی ایم ایف کا وفد قرض پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے رواں ماہ اسلام آباد پہنچ رہا ہے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کو اس وقت زراعت پر ٹیکس لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ اور کیا یہ اس سے قبل زراعت پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا جاتا تھا؟ اسی طرح یہ سوالات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ زرعی ٹیکس کےنفاذ سے فائدہ کیا اور نقصان کیا ہو سکتا ہے؟

پاکستان کی معیشت میں زراعت کی اہمیت؟

پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور پاکستان اکنامک سروے کے مطابق ملک میں تقریباً 38 فی صد ملازمتیں اسی پیشے سے وابستہ ہیں جب کہ یہ شعبہ ملک کے جی ڈی پی یعنی معاشی نمو میں 24 فی صد کا حصہ دار ہے۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک میں تھوڑی بہت جو معاشی نمو نظر آتی ہے اس کی بنیادی وجہ زرعی شعبے کی قدرے بہتر کارکردگی ہے اور اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں زرعی شعبے نے گزشتہ سال 6.4 فی صد کی رفتار سے ترقی کی جو توقعات سے زیادہ ہے۔

لیکن دوسری جانب اسی شعبے سے ٹیکس جمع ہونے کی شرح انتہائی کم نظر آتی ہے اور چاروں صوبوں سے گزشتہ سال جمع کیا گیا زرعی ٹیکس بمشکل چار ارب روپے تھا جو ملک میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا محض ایک فی صد سے بھی کم تھا۔

زراعت سے ٹیکس جمع کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے لیکن کئی معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اس بڑے سیکٹر س ے ٹیکس کی شرح انتہائی کم ہونے کے باوجود بڑی رقم اکھٹا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

رواں سال پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہنے کے لیے تقریباً 13 ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کرنے کا ہدف پورا کرنا ہے جس میں 400 ارب روپے شارٹ فال کا سامنا ہے۔

خدشہ ہے کہ مالی سال کے آخر میں شارٹ فال 800 ارب تک پہنچ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث حکومت اب زراعت کے شعبے میں زیادہ ٹیکس جمع کرنے پر مجبور ہوئی۔

زرعی شعبے سے زیادہ ٹیکس کیوں جمع نہیں ہو پاتا؟

لیکن کئی ماہرین معاشیات کے مطابق حکومت زرعی شعبے سے اس کی آمدن کے مطابق ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ماہر معاشیات اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اپنی کتاب 'چارٹر آف ڈیمو کریسی' میں تحریر کیا ہے کہ صرف ایک سال یعنی مالی سال 2021 میں زرعی ٹیکس جمع نہ کرنے کے باعث اشرافیہ کو 105 ارب روپے کی سبسڈی ملی۔

اسی سال کے تخمینے کے مطابق 25 ایکڑ یا اس سے بڑے فارم ہاؤسز ہی کی واحد کیٹیگری کے فارم ہاوسز کی آمدن کا تخمینہ 670 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا کہ پاکستان کی ایک فی صد آبادی 22 فی صد بہترین اور زرخیز ترین زمین کی مالک ہے۔ اگر پاکستان کی چار فی صد اشرافیہ کی بات کی جائے تو اس کے پاس 34 فی صد زیر کاشت زرخیز ترین زمین موجود ہے لیکن یہ لوگ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

کیا زرعی آمدن پر ٹیکس پہلی بار لگایا جا رہا ہے؟ اس پر سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے برطانوی دور سے اس کا نفاذ جاری ہے اور اس کے بعد بھی چاروں صوبوں میں یہ ٹیکس کسی نہ کسی صورت میں نافذ ہی رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور وزیرِ خزانہ پنجاب انہوں نے 1997 میں ٹیکس کی شرح پہلی بار فی 50 ایکڑ 500 روپے مقرر کی تھی جو آج کے حالات میں تقریباً 21 ہزار روپے کے لگ بھگ بنتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے افراد کی وجہ سےاس ٹیکس کو اس وقت بھی جمع نہیں کیا جاسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بھی یہی مسئلہ ہے۔ ٹیکس کی شرح آئی ایم ایف کے کہنے پر 15 سے 45 فی صد تو کردی گئی ہے اور اس کے لیے تمام صوبوں نے قانون بھی پاس کر دیے ہیں۔ لیکن اس بات کا امکان بہت کم ہی ہے کہ اس سے ٹیکس ریونیو میں کوئی بڑا اضافہ ممکن ہوسکے گا کیوں کہ اس میں اصل رکاوٹ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے خیال میں اگر ایمان داری سے ٹیکس کلیکشن کی جائے تو محض زراعت کے شعبے سے 850 ارب روپے سالانہ جمع کیے جاسکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے زیارہ پُرامید نہیں کہ ملک کا بالادست طبقہ جس کے پاس زرخیز ترین زمین موجود ہے وہ اس قدر آسانی سے ٹیکس دینے پر راضی ہوجائے گا۔کیوں کہ اس سے متعلق قوانین تو پہلے سے موجود تھے، یہ کوئی نئی قانون سازی نہیں۔ البتہ اس بار زرعی ٹیکس کی شرح ضرور بڑھائی گئی ہے۔

'آئی ایم ایف کے دباؤ پر زرعی ٹیکس بڑھایا جا رہا ہے'

دوسری جانب زراعت کے شعبے سے وابستہ اور فارمر ایسوسی ایٹس پاکستان کے ڈائریکٹر عباد خان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومتیں یہ ٹیکس وفاقی حکومت کے دباؤ پر لگا رہی ہیں اور ظاہر ہے کہ وفاقی حکومت نے اس سے متعلق آئی ایم ایف سے تحریری طور پر وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اس شعبے سے ٹیکس کلیکشن بڑھائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ زراعت کے شعبے میں نمو سے متعلق مستند ڈیٹا ہی دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے اس پر شک و شبے کا اظہار کیا کہ حکومت کی جانب سے گزشتہ سال زراعت کے شعبے میں 6.5 فی صد نمو دکھائی گئی۔ ان کے خیال میں میں عام کسان کے لیے یہ کافی مشکل سال تھا اور صرف ایک سال میں کسانوں کو 750 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

عباد خان کا کہنا تھا کہ بڑے زمینداروں سے ٹیکس اکھٹا کرنا حکومت کے لیے ممکن نہیں کیوں کہ وہ خود اقتدار کے ایوانوں میں ہیں اور ان کی تعداد کم ہے۔ لیکن زمین کا رقبہ کہیں زیادہ ہے۔اس لیے ٹیکس بڑھانے کا نزلہ ان چھوٹے زمینداروں پر ہی گرے گا جو کم آمدن اور زیادہ اخراجات سے پہلے ہی پریشان ہے۔

نتیجے کے طور پر وہ اپنی زمین بیچنے پر مجبور ہوگا اور پھر وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز بنتی جائیں گی جس سے زراعت کے ساتھ ساری معیشت تباہ ہوتی چلی جائے گی اور اس کے اثرات پہلے ہی نمایاں ہیں۔

عباد خان کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ریٹیلرز، پروفیشنلز اور ریئل اسٹیٹ مالکان سے مطلوبہ ٹیکس ہدف حاصل نہ ہونے پر زراعت پر ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔

زراعت پر ٹیکس لگانے سے فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ سنگین ہونے کا خدشہ

فارمر ایسوسی ایٹس پاکستان کے ڈائریکٹر کے مطابق زراعت پر ٹیکس لگانا غیر فطری اور بلاجواز ہے ۔ یہ دنیا کے صرف چند ملکوں کے سوا کہیں نہیں جب کہ بھارت اپنے کسانوں کو 100 ارب ڈالر تک کی سبسڈی فراہم کرتا ہے۔

دوسری جانب یورپ اور دیگر ممالک بھی کسانوں کو بھاری سبسڈی فراہم کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کی فوڈ سیکیورٹی کافی بہتر ہے۔

بھارت جو دنیا میں سب سے بڑی آبادی والا ملک بن چکا ہے وہاں ڈیڑھ سال کا غلہ موجود ہے جب کہ چین کے پاس بھی دو سے تین سال کے غذائی ذخائر موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کے پاس بمشکل تین ماہ کے غذائی ذخائر موجود ہیں۔

عباد خان نے مزید کہا کہ کسان مناسب ٹیکس دینے کو تیار ہیں اور وہ پہلے بھی ادا کرتے آرہے تھے۔ لیکن جب دیہات میں بنیادی سہولیات ہی فراہم نہ کی جائیں جیسے بجلی، صاف پانی، اسپتال ، امن و امان نہ ملے تو پھر وہ کس بات کا ٹیکس ادا کریں۔ اس کے بدلے انہیں مل ہی کیا رہا ہے؟

سندھ آباد گار اتحاد کے سربراہ نواب زبیر تالپور کے خیالات بھی ایسے ہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی زرعی پالیسی نہیں۔ صوبائی حکومتوں نے قوانین پر غور کیے بغیر آئی ایم ایف کے دباؤ میں وفاقی حکومت کے کہنے پر ایکٹ پاس کر دیے۔

اُن کے بقول زیادہ پیداواری قیمت جس میں بجلی، کیڑے مار ادویات کی قیمتیں، مہنگی کھاد اور دیگر مسائل ہیں جب کہ دوسری جانب گزشتہ سال تو کسان گندم، گنا اور کپاس حکومت کی طے کردہ سپورٹ پرائس سے کہیں نیچے بیچنے پر مجبور ہوئے۔ اوپر سے اب اس ٹیکس کے نفاذ کے بعد زراعت کا شعبہ کون اختیار کرنے کا سوچے گا؟

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ ٹیکس کی شرح کم یا زیادہ ہونا نہیں بلکہ ٹیکس کلیکشن کے اداروں کی کرپشن ہے۔ ان اداروں کی لوٹ مار اور کوتاہیوں کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں ٹیکس کم جمع ہوتا آیا ہے۔ یہاں تو کوئی اصلاحات یا تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی لیکن اب ایسے کرپٹ عناصر کو ٹیکس کی شرح بڑھا نے سے کسانوں کو مزید تنگ کرنے کے موقع میسر آ جائیں گے۔

'سیاسی دباؤ کے باعث زرعی ٹیکس بڑھنے کی امید کم ہے'

دوسری جانب سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی ٹنڈو جام میں پروفیسر اور ماہر زراعت ڈاکٹر محمد اسماعیل کنبھر کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان جیسے ملک میں زراعت پر ٹیکس جمع کرنا آسان نہیں۔ کیوں کہ اس میں ملک کے پاور اسٹرکچر اور سیاسی دباؤ جیسے عوامل حائل ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں برسرا قتدار شخصیات کے قبضے میں نظام کی نبض ہوتی ہے اور ادارے کمزور رہے ہیں۔ اب بھی یہی مسائل ہیں۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کمزور ہیں، وہ سیاسی دباؤ اور سیاسی دوستی اور دشمنی میں بٹے ہوئے ہیں۔ کمزور ادارہ جاتی صلاحیت کے علاوہ زراعت سے متعلق ڈیٹا موجود نہیں۔

اُن کے بقول سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ اس میں ٹیکنالوجی کا سہارا لینے کی کوشش بھی نہیں کی جارہی۔ ملک میں زمینوں سے متعلق ڈیجیٹل ریکارڈ تک مکمل نہیں ہے۔

ڈاکٹر اسماعیل کنبھر کے مطابق اس ضمن میں دوسرا اہم مسئلہ گورننس کا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے میں سیاسی دباؤ کے ساتھ کرپشن، لیکیجز اور شفافیت کے فقدان کا بھی ہے۔

صوبائی اور وفاقی حکومت میں اس بارے میں کوآرڈینیشن کا فقدان بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب تک ڈیجیٹائزیشن کا عمل نہ ہو، زرعی ٹیکس بڑھانے سے متعلق بلز کا فائدہ نہیں ہوگا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG