|
لاہور -- سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام خط پاکستان کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی ذرائع نے خط ملنے کی تصدیق نہیں کی۔
سوشل میڈیا پر عمران خان کے اکاؤنٹ سے شیئر کیے گئے خط میں اُنہوں نے آرمی چیف سے اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی کی درخواست کی ہے۔
عمران خان نے اپنے خط میں کہا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والے 'دھاندلی زدہ' انتخابات کے باعث فوج اور عوام کے درمیان دُوریاں پیدا ہوئیں۔ جب کہ اپنے خط میں عمران خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
خط کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ "فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے۔ ہمارے فوجی پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔"
'عمران خان فوج سے براہِ راست بات کرنا چاہتے ہیں'
تجزیہ کاروں کے مطابق تحریکِ انصاف اور عمران خان کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ براہِ راست فوجی قیادت سے بات کریں۔ لیکن دوسری جانب سے اس پر دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔
پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور آرمی چیف سے براہِ راست گفتگو کرنے کی خواہش پرانی ہے جو اس خط سے پہلی بار ظاہر نہیں ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کسی اور سے بات چیت کرنے کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہیں۔ رسمی کارروائی اُنہوں نے کر ڈالی، لیکن وہ سیاست دانوں سے بات کرنے کے لیے متفق نہیں تھے۔
خیال رہے کہ عمران خان نے چند روز قبل حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن نہ بننے کے باعث حکومت سے مذاکرات ختم کیے جا رہے ہیں۔
'یہ ڈیڈ لاک والی صورتِ حال ہے'
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کے خط میں ایک طرح سے آرمی چیف پر الزامات لگائے گئے ہیں کہ اُن کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں دُوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔
سینئر تجزیہ کار اور کالم نویس مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان موجودہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی 'پراکسی' قرار دیتے رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ فوج کے ساتھ براہ راست بات کرنا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
اُن کے بقول پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی ادراک ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے بات نہیں کرنا چاہتی اور وہ اس صورتِ حال کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ڈیڈ لاک والی صورتِ حال ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نے خط میں فوج کے حوالے سے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے اس کی قربانیوں کو بھی تسلیم کیا ہے اور یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ وہ فوج اور آرمی چیف کے خلاف نہیں ہیں۔
اُن کے بقول عمران خان نے اس خط کے ذریعے ایک طرح سے فوج کو یہ پیغام دیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نو مئی کے بعد فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان بڑھنے والی کشیدگی بھی کم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی اور عمران خان سے متعلق رویے پر نظرِ ثانی کرے۔
کیا فوج سے معاملات بہتر کرنے کی یہ سنجیدہ کوشش ہے؟
احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اُن کا نہیں خیال کہ خط کا مقصد یہ ہے کہ فوج کےساتھ مذاکرات کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی جائے بلکہ اس کے ذریعے ایک طرح سے عمران خان نے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ تو معاملات بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
اُن کے بقول عمران خان دنیا کے مختلف ممالک میں پی ٹی آئی کے حامیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ان حالات میں بھی معاملات سدھارنے کے لیے فوج سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تجزیہ کار مظہر عباس کے خیال میں ہر سیاسی جماعت جو اقتدار میں رہی ہے اُس کا رویہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہی رہا ہے اور جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو رویہ اور ہوتا ہے۔
اُن کے بقول یہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے تضادات ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان، آصف زرداری ہو یا بھلے نواز شریف اُن کے رویوں میں مسلسل تضاد نظر آئے گا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ جب بھی یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار نہ ہونے پر متفق ہوتے ہیں لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں تو اپنی 'اسپیس' کسی اور کو دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
کیا عمران خان خود بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں گے؟
احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ عمران خان کے طرزِ سیاست سے تو نہیں لگتا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر بھی نظرِ ثانی کریں گے۔ کیوں کہ ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اُنہوں نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا ہو۔
اُن کے بقول عمران خان کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ سول حکومت کے ساتھ ہی بات چیت کریں اور انہی کے ذریعے آرمی چیف تک اپنا پیغام پہنچائیں۔
مظہر عباس کی رائے میں تمام سیاسی قائدین کو اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے کہ ان کے رویوں اور بیانیے میں تبدیلی کیوں آ جاتی ہے۔ موجودہ حکومت 2017 تک اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چلتی تھی، آج وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل عمران خان چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان کو ' پاکستان میں آئینی نظام کی تباہی' کے عنوان سے ایک خط لکھ چکے ہیں۔
فورم