|
نئی دہلی -- بھارتی دارالحکومت دہلی کے اسمبلی انتخابات کے لیے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، عام آدمی پارٹی اور کانگریس مدِمقابل ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل مقابلہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہی ہے۔
انتخابات کے لیے بدھ کو پولنگ ہوئی جب کہ آٹھ فروری کو ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
دہلی اسمبلی میں کل 70 نشستیں ہیں۔سن 2020 کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے 62 اور 2015 میں 67 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ کانگریس کو دونوں انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ دہلی میں مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ ووٹرز ہیں جب کہ امیدواروں کی تعداد 699 ہے۔
مبصرین کے مطابق عام آدمی پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال 'ہیٹ ٹرک' کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ بی جے پی اقتدار حاصل کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگریس بھی دہلی میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
انتخابی مہم کے دوران عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کی جانب سے عوام اور بالخصوص خواتین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے متعدد رعایتوں کا اعلان کیا گیا ہے جن میں خواتین کو ہر ماہ وظیفے، سٹی بسوں میں مفت سفر، 200 یونٹ تک بجلی مفت اور دیگر مراعات شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ دو انتخابات میں کانگریس کی انتخابی مہم بھی کمزور تھی اور اس کی کارکردگی بھی انتہائی ناقص تھی۔ حالاں کہ اس سے قبل وہ مسلسل 15 سال برسراقتدار رہی ہے۔ لیکن اس الیکشن میں اس نے پوری قوت لگا دی۔ تاہم یہ قیاس آرائی کرنا مشکل ہے کہ اسے کتنی نشستیں ملیں گی۔
عام آدمی پارٹی اور بی جی پی کی انتخابی مہم کیسی رہی؟
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مرکز میں نریندر مودی حکومت نے یکم فروری کو پیش کیے جانے والے عام بجٹ میں مڈل کلاس کو کافی رعایتیں دی ہیں اور یہ قدم انتخابات کو سامنے رکھ کر اٹھایا گیا ہے۔
جب بجٹ پیش ہوا تھا تو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی ایسا ہی الزام عائد کیا تھا۔ جب کہ بی جے پی کے ترجمانوں نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
بی جے پی کا خیال ہے کہ بجٹ میں رعاتیں دینے کا اچھا اثر پڑے گا۔خود وزیر اعظم مودی نے دہلی میں اتوار کو اپنی ایک انتخابی ریلی میں کہا کہ پورا مڈل کلاس کہہ رہا ہے بھارت کی تاریخ میں یہ مڈل کلاس کے لیے سب سے اچھا بجٹ ہے۔
عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجری وال نے جب اپنی پارٹی قائم کی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں ایک نئی قسم کی سیاست شروع کرنا چاہتے ہیں جس میں بدعنوانی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
دہلی کے سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنے والے ایک سیاسی و سماجی کارکن عبد الرحمن عابد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عوام نے ان کی باتوں پر بھروسہ کیا اور دو بار انہیں کامیاب کرایا۔ لیکن خود ان پر اور ان کے نائب منیش سسودیا پر بدعنوانی کے الزامات لگے اور دونوں کو جیل جانا پڑا جس کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے اور مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
واضح رہے کہ اروند کیجری وال، منیش سسودیا اور رکن پارلیمان سنجے سنگھ کی گرفتاری کے وقت عام آدمی پارٹی نے کہا تھا کہ اس کے رہنماوں پر بدعنوانی کے الزامات سیاسی بد نیتی سے لگائے گئے ہیں۔ مودی حکومت ان کو جیل میں ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
مسلم ووٹرز کی اہمیت
عبد الرحمن عابد کا یہ بھی کہنا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات کے باوجود نچلے طبقات اور بڑی حد تک مسلمان بھی ان میں اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن دونوں کے اعتماد کی وجوہات الگ الگ ہیں۔
ان کے خیال میں کیجری وال کی حکومت نے گزشتہ 10 برس میں دہلی میں تعلیم اور صحت کے نظام میں نمایاں اصلاح کی ہے جس کے سبب تعلیمی معیار بھی بہتر ہوا ہے اور صحت نظام بھی ٹھیک ہوا ہے۔
لیکن ان کے خیال میں مسلمانوں کا مسئلہ دوسرا ہے۔ اس سے قبل کے دو انتخابات میں مسلمانوں کی اکثریت نے عام آد می پارٹی کو ووٹ دیا لیکن کیجری وال نے مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔
عبد الرحمن عابد کہتے ہیں کہ 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مذہبی تشدد میں انھوں نے مسلمانوں کو مایوس کیا تھا جس کے سبب مسلمانوں کی بڑی تعداد اب ان سے اُکتا گئی ہے پھر بھی انہوں نے بی جے پی کو روکنے کے لیے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔
اسد الدین اویسی کی جماعت بھی میدان میں
دہلی انتخابات میں اسد الدین اویسی کی پارٹی ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘(اے آئی ایم آئی ایم) بھی دو مسلم اکثریتی حلقوں میں قسمت آزمائی کر رہی ہے۔
اس نے اوکھلا میں شفاء الرحمن اور مصطفیٰ آباد میں طاہر حسین کو امیدوار بنایا ہے۔ یہ دونوں 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مذہبی فساد کے سلسلے میں جیل میں ہیں۔ پولیس نے ان دونوں کو سازش کرنے کا ملزم بنایا ہے۔ دہلی کی ایک عدالت نے دونوں کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے پیرول پر ضمانت دی ہے۔
مین پاور کا کام کرنے والے اوکھلا کے ایک شہری ارشد سراج الدین مکی کا کہنا ہے کہ ان دونوں حلقوں میں مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہو رہا ہے۔ نوجوانوں اور طلبہ کا طبقہ ایم آئی ایم ان کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن سنجیدہ مسلمانوں کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ بٹنے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ لہٰذا وہ نہ چاہتے ہوئے بھی عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیا۔
حکومت کے محکمہ آیوش کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سید احمد خان وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد الدین اویسی کی نیت پر شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر وہ الیکشن لڑنے میں سنجیدہ تھے تو انہیں دوسرے حلقوں میں بھی امیدوار کھڑے کرنے چاہئیں تھے۔
ان کے مطابق صرف مسلم حلقوں میں امیدوار اتارنے سے اس الزام کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ ان کی سیاست بی جے پی کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
اسد الدین اویسی بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والی سیاست کرنے کے الزام کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو اقتدار سے روکنے کی ذمہ داری تنہا ان کی نہیں ہے۔ ایک سیاسی پارٹی ہونے کے ناطے ان کو بھی الیکشن لڑنے کا حق ہے۔
’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپمنگ سوسائٹی‘ (سی ایس ڈی ایس) کے ریسرچر ہلال احمد کہتے ہیں کہ دہلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
ان کے خیال میں زمینی سطح پر کام کرنے والے اس کے کارکن ہیں اور اس کے رہنماؤں کی سیکنڈ لائن بھی ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہلی کے مسلمانوں سے کانگریس کا تاریخی رشتہ رہا ہے۔ وہ بھی اس الیکشن میں اپنے لیے جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اس تناظر میں ووٹرز کے پیشہ ورانہ انداز کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دہلی کے مسلمان بھی دیگر طبقات کے مانند پیشہ ورانہ انداز میں ووٹ ڈالتے رہے ہیں۔
کیا بدعنوانی کے الزامات عام آدمی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں؟
ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر سنجے کمار کے مطابق اس الیکشن میں بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے۔ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
ان کے خیال میں مودی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے بجٹ میں مڈل کلاس کو ٹیکس میں دی جانے والی رعایت کا یقینی طور پر اثر پڑا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دہلی میں مڈل کلاس کا طبقہ بہت بڑا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طبقے کا جھکاؤ پہلے ہی بی جے پی کی طرف ہو گیا تھا۔
کچھ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کو جو ووٹ ملا ہے وہ عام آدمی پارٹی کا ہے۔ بی جے پی کا ووٹ بینک مستحکم ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ کانگریس کی وجہ سے عام آدمی پارٹی کو نقصان اور بی جے پی کو فائدہ ہوا ہو۔
دریں اثنا وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کو مہا کمبھ کے موقع پر پریاگ راج میں گنگا میں اشنان کیا۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے بی جے پی کو مزید ووٹ ملنے کا امکان ہے۔
فورم