|
شام کے عبور ی صدر احمد الشرع نے کہا ہے کہ ان کی حکومت آنے والے دنوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لیکن اس کا ابھی تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے ۔
انہوں نے یہ بات برطانیہ کے جریدے ، دی اکانومسٹ ‘ کو ایک انٹر ویو میں کہی۔
پیر کی رات شائع ہونے والے انٹر ویو میں الشرع نے کہا ، ’’ میرا خیال ہے کہ صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ علاقے میں امن چاہتے ہیں اور پابندیاں اٹھانا ایک اولین ترجیح ہے ۔ امریکہ شام کے لوگوں کے مصائب بر قراررکھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔‘
انہوں نے شام پر ابھی تک نافذ امریکی پابندیوں کو ملک کےلیے ’’ سنگین ترین خطرہ‘‘ قرار دیا ۔
شام میں غیر قانونی فوجی موجودگی کو جاری نہیں رہنا چاہیے
اکانومسٹ کے مطابق ، گزشتہ ہفتے شام کے عبوری سر براہ قرار دیے جانے والے الشرع نے یہ بھی کہا کہ امریکی فوجی شام میں حکومت کی منظوری کے بغیر موجود ہیں اور یہ کہ ایسی کوئی بھی موجودگی ریاست کے ساتھ کسی معاہدے کے تحت ہونی چاہیے ۔
امریکہ نے ایک دہائی قبل داعش کے خلاف اپنی مہم کے دوران شام میں فورسزتعینات کی تھیں۔ وہ ابھی تک شمال اور شمال مشرق میں موجود ہیں اور شام کے ایک اتحادی ، کرد اقلیتی برادری کی قیادت میں فعال شامی ڈیمو کریٹک فورسز،( ایس ڈی ایف) کی مدد کررہی ہیں۔
الشرع نے کہا کہ،’’ نئی شامی ریاست کو مد نظر رکھتے ہوئے ، میرا خیال ہے کہ کسی بھی غیر قانونی فوجی موجودگی کو جاری نہیں رہنا چاہیے ۔ کسی خود مختار ملک میں کسی بھی فوجی موجودگی کو کسی مخصوص معاہدے کے ساتھ ہونا چاہیے ، اور ہمارے اور امریکہ کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔‘‘
دہشت گرد کے طور پر نامزدگی بے معنی ہے
الشرع، جو ماضی میں ایک وقت میں القاعدہ کے ایک ساتھی رہے ہیں ،مسلح گروپ، ہیت تحریر الشام ، (HTS) کی قیادت کرتے تھے جس نے شام کے سابق صدر بشار الاسد کا 8 دسمبر کو تختہ الٹ دیا تھا۔
تاہم امریکہ ایچ ٹی ایس کو اس کے باوجود مسلسل ایک دہشت گرد گروپ قرار دیے ہوئے ہے جب کہ اس نے 2016 میں القاعدہ سے اپنے رابطے منقطع کر لیے تھے ۔ دمشق میں امریکی سفارت خانے نے 2012 میں اپنی کارروائیاں معطل کر دی تھیں۔
الشرع نے کہا کہ ان تمام مسلح دھڑوں کو، جو اسد اقتدار کے خلاف لڑے تھے، تحلیل کرنے کے فیصلے کے بعد ایچ ٹی ایس کی دہشت گرد کے طور پر نامزدگی بے معنی ہو گئی ہے ۔
شام پر جاری پابندیاں
اسد کو اپنی وحشیانہ پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں پر الگ تھلگ کرنے اور ایک عشرے سے زیادہ کی خانہ جنگی کے بعد کسی سیاسی حل پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کی جانب سے شام برسوں سے سخت پابندیوں کے تحت رہا ہے ۔
رواں سال جنوری میں سبکدوش ہونے والی بائیڈن انتظامیہ نے شام کے حکومتی اداروں کے ساتھ لین دین پر پابندیوں سے چھ ماہ کا ایک استثنیٰ جاری کیا تھا۔ یہ اقدام دسمبر میں سینئیر امریکی سفارت کاروں کے دمشق کے دورے کے بعد کیا گیا۔
شام میں روسی فوجی موجودگی کا از سر نو جائزہ
الشرع نے یہ بھی کہا کہ ان کی انتظامیہ شام میں، جہاں ماسکو نے اسد کی حمایت کی تھی ، روسی فوجی موجودگی کا بھی از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔
روس نے جو شام میں ایک بحری اور ایک فضائی اڈے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے ، گزشتہ ہفتے ایک سینئیر عہدے دار کو دمشق بھیجا تھا۔
الشرع نے کہا کہ ، ’’ ہمارا (ان کے ساتھ) کوئی معاہدہ ہو سکے یا نہ ہو سکے، لیکن بہر طور ، میزبان ملک میں کوئی بھی فوجی موجودگی کسی معاہدے کے ساتھ ہونی چاہیے ۔‘‘
اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر ابھی تک غور نہیں ہوا ہے
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا تصور کر سکتے ہیں ، الشرع نے کہا، ’’ہم تمام فریقوں کے ساتھ امن چاہتے ہیں۔ ‘‘
لیکن علاقائی جنگوں اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کی وجہ سے ، جنہیں اس نے شام سے 1967 کی جنگ میں چھینا تھا، یہ ایک حساس معاملہ ہے ۔
انہوں نے کہا،’’ ہمارے سامنے بہت سی ترجیحات ہیں ، اس لیے ابھی کسی ایسے معاملے پر گفتگو کرنا بہت قبل از وقت ہے کیوں کہ یہ وسیع رائے عامہ کا متقاضی ہے ۔اس پر بات کرنے کے لیے بہت سے ضابطہ کار اور قوانین درکار ہیں ، اور سچ تو یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک اس پر غور نہیں کیا ہے ۔‘‘
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم