|
رائٹرز کے مطابق ، غزہ میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوعہ نے منگل کو دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے جنگ بندی کےپہلے مرحلے کے دوران غزہ میں انسانی معاملات پر عمل درآمد نہیں کیا ہے، اور جنگ کے دوران تباہ ہونے والے اسپتالوں، سڑکوں، پانی کے کنوؤں اور انفرا اسٹرکچر کی مرمت میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔
اسرائیل نے فوری طور پر حماس کے اس الزام کا جواب نہیں دیا ہے ۔ البتہ، اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ شیرن ہسکل نے "ایم ایس این بی سی" نشریاتی ادارے کے پروگرام " مارننگ جو" میں بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حماس نے بہت سےضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔
نائب وزیر خارجہ نے کہا، "اس کے باوجود، ہم پر امید ہیں، ہم اپنے خاندان کے تمام افراد کو واپس لانا چاہتے ہیں، اور ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ کیا جا سکے۔"
اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ کی لڑائی کے بعد جنگ بندی کا پہلا مرحلہ 19 جنوری کو شروع ہوا تھا ہوا جس کے تحت لڑائی میں وقفہ، حماس کی جانب سے کچھ اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور اس کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے سینکٹروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہیں۔
رائٹرزکے مطابق حماس کے ترجمان عبداللطیف القنوعہ نے منگل کو یہ بھی کہا کہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر روابط اور مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا کہ یہ بات چیت کس کے ساتھ ہورہی ہے۔ نہ ہی اس کی تصدیق کی جاسکی ہے۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے منگل کے روز کہا تھا کہ اسرائیل اس معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھنے پر بات چیت کے لیے ایک اعلیٰ سطحی وفد قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے۔
نیتن یاہو منگل کو واشنگٹن میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران متوقع طور پر جنگ بندی کے معاہدے اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سمیت خطے کو درپیش دیگر مسائل پر بات کریں گے۔ جس میں یرغمالوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا توجہ کا مرکز ہوں گے۔
امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے تین مرحلے ہیں جبکہ پہلے مرحلے کے نکات پر دونوں اطراف سے عمل درآمد جاری ہے۔
تاہم، رائٹرز کے مطابق مشرق وسطی کے مسئلے کے دیر پا حل پر صورت حال ابھی واضح نہیں ہے۔
جنگ میں وقفے کے دوران غزہ میں اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والے اداروں اور اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ بے گھر ہونے والے اور متاثرہ فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان کی ترسیل میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔
مشرق وسطی میں جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے دہشت گرد حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 کے لگ بھگ افراد کو یرغمال بنا لیا گیا جو حماس کی اسیری میں رہے۔
امریکہ اور بعض مغربی ملکوں نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
دوسری طرف غزہ پر اسرائیلی جوابی حملوں میں حماس کے زیر انتظام فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق 47 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ جنگ کے دوران اس نے 17 ہزار کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیاہے۔
اندرونی طور پر نیتن یاہو اور اسرائیل کے جنگ بندی کے مخالف رہنماؤں نے ایک دوسرے پر اب تک کے معاہدے کے نفاذ پر تنقید کی ہے۔ تاہم، دونوں نے معاہدے کے اگلے مرحلے پر اتفاق کرنے پر اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی رہنما کہتے ہیں کہ حماس غزہ میں جنگ کے بعد حکمرانی نہیں کر سکتی۔ تاہم، عسکریت پسند تنظیم کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جس میں وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کرتی ہو کہ جنگ کے دوران اپنے رہنماؤں اور ہزاروں جنگجووں کی ہلاکت کے باوجود وہ غزہ کی پٹی پر کنٹرول رکھتی ہے۔
(اس خبر میں شامل معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)
فورم