امریکی محکمہٴ خارجہ کے 1000 سے زائد اہل کار اور خارجہ امور کے سرکاری ملازموں نے ایک دستاویز پر دستخط کیے ہیں جس میں اُنھوں نے مہاجرین پر سفری بندش سے متعلق صدر کے حالیہ حکم نامے سے اختلافِ رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات ذرائع نے منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کو بتائی۔
شام میں سابق امریکی سفیر، رابرٹ فورڈ نے بتایا ہے کہ اگر دستخطوں کی تعداد 1000 تک کا معاملہ ہے تو یہ ایک ’’غیر معمولی‘‘ بات ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اوباما انتظامیہ کی شام سے متعلق پالیسی پر گذشتہ سال کئی سفارت کاروں نے سخت نکتہ چینی کی تھی اور ایک مخالفانہ مراسلے پر دستخط کیے تھے، جو تعداد اس سے تقریباً 20 گُنا کم تھی۔
امیگریشن کے حکم نامے سے اختلاف کرنے والوں کی یہ بڑی تعداد اور اس کے فوری افشا کا معاملہ اس بات کا مظہر ہے کہ محکمے کے اندر اس پالیسی مؤقف اور بیرونی پالیسی کی وسیع تر سمت پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ بات لورا کنیڈی نے کہی ہے جو سابق معاون وزیر خارجہ برائے یورپی اور یورو ایشین امور رہ چکی ہیں۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ غیر معمولی لمحہ ہے‘‘۔
اختلاف رائے پر مبنی یہ مراسلہ جس میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’انتظامیہ کا اقدام اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوگا، اور ممکنہ طور پر خلافِ منشا ثابت ہوگا‘‘۔ محکمہٴ خارجہ کے مطابق، ابھی اسے باضابطہ طور پر پیش نہیں کیا گیا، اس لیے، اس پر کوئی بیان نہیں دیا جا سکتا، آیا کتنے اہل کاروں نے دستخط کیے ہیں وہ کن عہدوں پر فائز ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، شان اسپائسر نے پیر کے دِن اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ جو محکمہٴ خارجہ میں صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے امیگریشن حکم نامے کی مخالفت کرتے ہیں، ’’اُنھیں یا تو پروگرام کا ساتھ دینا ہوگا، یا پھر وہ چلے جائیں۔ یہ امریکہ کے تحفظ کا معاملہ ہے‘‘۔