امریکہ کے مختلف شہروں میں اتوار کے روز دوسرے دِن بھی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے سات مسلمان اکثریتی ملکوں کے مسافروں پر لگائی گئی پابندی کے خلاف مظاہرے جاری رہے۔ وائٹ ہائوس کے سامنے اتوار کے روز سینکڑوں مظاہرین نے احتجاج کیا۔
مظاہرین جو نعرے لگا رہے تھے، اُن میں: 'نفرت نہیں، خوف نہیں، مہاجرین کو یہاں خوش آمدید کیا جاتا ہے' شامل تھا۔
مظاہرین ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے، جس اقدام کی رو سے کم از کم 120 دِنوں تک امریکہ آمد پر بندش ہوگی۔ حکم نامے میں ایران، لیبیا، صومالیہ، عراق، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر 90 دِن؛ جب کہ شام کے شہریوں پر غیر معینہ مدت تک بندش لگائی گئی ہے۔
یہ احتجاجی مظاہرے نیو یارک کے بیٹری پارک میں جاری رہے، جو 'اسٹیچو آف لبرٹی' کے سامنے واقع ہے، جو امریکہ کی یادگار ہے، جسے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے دنیا بھر کے تارکینِ وطن کے لیے خاص کشش اور خیرمقدم کی علامت ہے۔
یہ مظاہرے لوس انیجلس، فلاڈیلفیا، ہوسٹن، بوسٹن، لوزویل اور ڈیٹرائٹ میں نکالے گئے۔
امریکہ میں طبی تعلیم سے وابستہ 25 برس کی عراقی طالبہ نے'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ وہ لوس انجلیس میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کر رہی ہیں، تاکہ ''میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی مدد کرسکوں''، جنھیں ہوائی اڈے کے دروازے پر روک دیا گیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان سے ملنے کے لیے عراق جانے کا ارادہ رکھتی تھیں، لیکن اُن کے خاندان کے ارکان کو اُن سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
اس کے علاوہ، ایک صومالی نژاد والد نے، جو 10 برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں، 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ اُن کی بیوی کو ہفتے کے روز واشنگٹن سے باہر، ڈلیس بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر روکا۔
فرحان نے بتایا کہ امی گریشن حکام نے اُنھیں بتایا کہ اُن کی شہریت کی بنا پر اُنھیں امریکہ میں آمد کی اجازت نہیں دی گئی۔ تاہم، اُن کے بچے یہاں رہ سکتے ہیں۔