امریکہ کی ایک عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عارضی طور پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا ہے جس میں امریکی ہوائی اڈوں پر سات مسلم اکثریتی آبادی والے ملکوں سے قانونی دستاویزات کے حامل شہریوں کو تحویل میں روکنے اور ملک بدر کرنے کا کہا گیا تھا۔
وفاقی حکام کے مطابق ٹرمپ کی طرف سے جمعہ کو حکم نامہ جاری کیے جانے کے بعد ہفتے کو دیر گئے مختلف امریکی ہوائی اڈوں پر کم از کم 170 افراد کو تحویل میں لیا گیا۔
نیویارک میں ایک وفاقی جج نے ہفتہ کو دیر گئے ایک عارضی حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت امریکی سرحدی ایجنٹس کو عراق، شام، ایران، سوڈان، لیبیا، یمن اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مستند امریکی ویزے کے حامل شہریوں کو امریکہ آمد پر واپس بھیجنے سے روکا گیا ہے۔
جج نے اپنے حکم میں کہا کہ امتناع کے بغیر پناہ گزینوں، ویزہ رکھنے والوں اور صدر کے احکامات کی زد میں آنے والے ان ملکوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ناقابل تلافی نقصان کا خدشہ ہے۔
مزید برآں یہ عدالتی حکم امتناع ایسے پناہ گزینوں کو بھی تحفظ دے گا جن کی امریکہ میں پناہ کی درخواست منظور ہو چکی ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ حکم امتناع جج این ڈونلی نے جاری کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے حکم نامہ جاری کیے جانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی 12 پناہ گزینوں کو جے ایف کینڈی ہوائی اڈے پر تحویل میں لے لیا گیا، لیکن بعد ان میں سے دو کو رہا کر دیا گیا۔
صدر ٹرمپ نے ان بیانات کو مسترد کیا ہے کہ ان کا یہ حکم مسلم مخالف اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ایک صحافی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "یہ انتہائی سخت" کارروائی "بہت ہی مناسب انداز" میں کی جا رہی ہے۔
"آپ نے اسے ہوائی اڈوں پر ہوتے دیکھا ہے، آپ اسے ہر طرف ہوتا دیکھ رہے ہیں۔"
نیویارک کی عدالت سے ٹرمپ کے احکامات پر عارضی حکم امتناع کے لیے درخواست نیویارک شہر کے ہوائی اڈے جے ایف کینیڈی پر روکے گئے دو عراقی شہریوں کی طرف سے شہری حقوق و آزادی کی تنظیم اور دیگر ایسے گروپس نے دائر کی تھی۔ اس میں دیگر شہروں میں بھی ٹرمپ کے حکم نامے سے متاثر ہونے والوں کو سہولت فراہم کرنے کا کہا گیا۔
ان دونوں عراقی شہریوں کو بعد ازاں رہا کر دیا گیا تھا۔
ادھر صدر کے اس حکم نامے کے خلاف مختلف شہروں میں بڑے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے ہیں جب کہ قانون سازوں کی طرف سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔
گزشتہ نومبر کے صدارتی انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہونے والی ڈیموکریٹ ہلری کلنٹن انتخابات کے بعد سے زیادہ تر خاموشی کو ہی ترجیح دیتی آرہی ہیں، لیکن ہفتہ کو انھوں نے بھی ٹوئٹر پر کہا کہ "میں ملک بھر میں جمع ہونے والے ان افراد کے ساتھ ہوں جو ہماری اقدار اور آئین کے تحفظ کے لیے (باہر آئے) ہیں۔ یہ وہ سب نہیں ہے جو (دراصل) ہم ہیں۔"
ایوان نمائندگان کے اسپیکر پال رائن نے ٹرمپ کے احکامات کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جب کہ سوشل میڈیا پر ان کے ناقدین کی طرف سے رائن کے چھ ماہ قبل دیے گئے اس بیان کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے جس میں انھوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی بھی طرح کے امتیاز کی مذمت کی تھی۔
رائن کے ترجمان ایشلی سٹرونگ کا کہنا تھا کہ " یہ کوئی مذہب کی بنیاد پر ٹیسٹ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والوں پر پابندی ہے۔"
نبراسکا سے سینیٹر بین ساسی کہتے ہیں کہ ٹرمپ خاص طور پر امریکی سرحدوں کے تحفظ پر توجہ دیے ہوئے ہیں، لیکن ان کے بقول یہ حکم نامہ "بہت وسیع پیرائے" کا ہے۔
ایریزونا سے ریپبلکن سینیٹر جیف فلیک کا کہنا تھا کہ ٹرمپ قومی سلامتی سے متعلق تشویش پر حق بجانب ہیں، "لیکن یہ ناقابل قبول ہیں کہ جب قانونی طور پر مستقل رہائش کی اجازت رکھنے والوں کو تحویل میں لیا جائے یا واپس بھیج دیا جائے۔"
امریکہ میں مسلمانوں سے متعلق ایک بڑی نمائندہ تنظیم "کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز" کی عہدیدار لینا ایف مصری کہتی ہیں کہ "یہ حکم تعصب پر مبنی ہیں نہ ہی حقیقت پر۔"
ہوم لینڈ سکیورٹی کے سابق عہدیدار جان کوہن کا کہنا ہے کہ صدر کی طرف سے عائد کی گئی پابندی ملک کو درپیش "دہشت گردی سے متعلق بنیادی خطرے" کا احاطہ نہیں کرتی۔ ان کے بقول ملک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو پہلے ہی انٹرنیٹ پر دیکھی جانے والی چیزوں سے انتہا پسندی سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پنسلوینیا سے تعلق رکھنے والے ریپبلکن کانگریسمین چارلی ڈینٹ کے حلقے میں ایک قابل ذکر تعداد شامیوں کی ہے۔ انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے چھ شامیوں کو جن کے پاس ویزہ بھی تھا، فیلاڈیلفیا کے ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد قطر واپس بھیج دیا گیا۔
ڈینٹ نے کہا کہ "یہ مضحکہ خیز ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں ان (ٹرمپ) کے تصور کو سمجھتا ہوں، لیکن بدقسمتی سے یہ حکم نامہ مکمل غور کیے بغیر جلد بازی میں جاری کیا گیا۔"
ہوائی سے ریپبلکن سینیٹر برائن شوارٹز نے ٹوئٹر پر کہا کہ "شیم، شیم، شیم۔۔۔مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔"
کیلیفورنیا سے ڈیموکریٹ سینیٹر ڈایائن فائنسٹائن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "یہ پابندی ناقابل یقین عمل ہے۔ کسی کی انفرادی طور پر جھان بین ایک مختلف چیز ہے جب کہ کسی کو اس بنا پر کہ وہ ایک مخصوص ملک سے یا مخصوص مذہب سے تعلق رکھتا ہے ملک میں داخل ہونے سے روکنا ایک بالکل الگ چیز ہے۔"