شمالی و جنوبی کوریا کے سربراہان نے ایک اعلامیے پر دستخظ کیے ہیں جس میں دونوں ملکوں نے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
جمعے کو شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان اور جنوبی کوریا کے صدر مون جائے ان کے درمیان ایک سرحدی گاؤں میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں فریقین نے دونوں ملکوں کے درمیان مستقل امن کے قیام اور حالتِ جنگ کے خاتمے کے لیے سالِ رواں کے آخر تک معاہدہ کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
خیال رہے کہ 1950ء سے 1953ء کے دوران ہونے والی جنگِ کوریا کسی باضابطہ امن معاہدے کے بجائے جنگ بندی کے ایک عبوری سمجھوتے پر روکی گئی تھی جس کے باعث دونوں ممالک تیکنیکی طور پر تاحال حالتِ جنگ میں ہیں۔
جمعے کو ہونے والی سربراہی ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے جس اعلامیے پر دستخط کیے ہیں ان میں عسکری طاقت میں کمی، ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ اقدامات روکنے، انتہائی کشیدہ سرحد کو 'علاقۂ امن' میں تبدیل کرنے اور دیگر ملکوں بشمول امریکہ کے ساتھ مشترکہ بات چیت کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔
جنوبی و شمالی کوریا کے سربراہان کے درمیان گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران ہونے والی یہ پہلی جب کہ جنگِ کوریا کے بعد تیسری ملاقات تھی۔
جمعے کو ہونے والی سربراہی ملاقات کے نتیجے میں کم جونگ ان شمالی کوریا کی تاریخ کے پہلے سربراہ بن گئے ہیں جو سرحد عبور کرکے جنوبی کوریا آئے۔ اس سے قبل دونوں سربراہی ملاقاتیں 2000ء اور 2007ء میں شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ میں ہوئی تھیں۔
جمعے کو جنوبی کوریا کے سرحدی گاؤں پنمن جوم میں دونوں سربراہانِ مملکت کے درمیان تخلیے میں اور وفود کی سطح پر ملاقاتوں کے کئی دور ہوئے۔
وفود کی سطح پر ملاقات سے قبل کم جونگ ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ابتدائی لکیر پر کھڑے ہیں جہاں سے امن، ترقی اور بین الکوریائی تعلقات کی نئی تاریخ لکھی جائے گی۔
جنوبی کوریا کے ایک اعلیٰ اہلکار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ صدر مون کے ساتھ تخلیے میں ملاقات کے دوران کم جونگ ان نے میزبان صدر سے کہا کہ وہ آج اس لیے جنوبی کوریا آئے ہیں تاکہ تصادم پر مبنی تاریخ کا خاتمہ کیا جاسکے۔
اہلکار کے مطابق کم جونگ ان نے سول میں واقع صدارتی محل آنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ملاقاتیں مستقبل میں تواتر سے ہوں۔
ملاقات میں کم جونگ ان نے مذاقاً کہا کہ انہیں افسوس ہے کہ ان کے میزائل تجربات کی وجہ سے صدر مون کی رات کی نیند خراب ہوتی تھی۔
لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی ابتدائی ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ظہرانے میں شرکت کی جس کے بعد انہوں اپنی اس ملاقات کی یادگار کے طور پر ایک پودا لگایا۔
بعد ازاں دونوں سربراہان کی دوبارہ وفود کی سطح پر بات چیت ہوئی جس کا اختتام عشائیے پر ہوا۔دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر امن کے موضوع پر بنائی جانے والی ایک فلم بھی دیکھی۔
جمعے کی ملاقات تاریخی طور پر اس لیے بھی اہمیت کی حامل تھی کہ یہ اس غیر فوجی زون میں ہوئی جو جنگِ کوریا کے بعد 1953ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں بطور 'بفر زون' قائم کیا گیا تھا۔
لگ بھگ 260 کلومیٹر طویل اور چار کلومیٹر چوڑے اس زون میں کئی دیہات بھی آباد ہیں جن میں سے جنوبی کوریا کی حدود میں آنے والے ایک گاؤں پنمون جوم کو اس سربراہی ملاقات کی میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
اس سے قبل جمعے کی صبح کم جونگ ان نے دونوں کوریاؤں کو تقسیم کرنے والی جنگ بندی لائن عبور کی تو جنوبی کوریا کے صدر مون نے ان کا استقبال کیا۔
اس موقع پر صدر مون، کم جونگ ان کی کی دعوت پر کچھ دیر کے لیے سرحد عبور کرکے شمالی کوریا میں داخل ہوئے جس کے بعد دونوں رہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جنوبی کوریا کے سرحدی گاؤں پہنچے جہاں باضابطہ استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی۔
اس موقع پر دو جنوبی کوریائی بچوں نے دونوں سربراہان کو پھولوں کے گلدستے پیش کیے۔ یہ دونوں بچے دونوں کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی زون میں قائم جنوبی کوریا کے واحد اسکول کے طلبہ ہیں۔
اس موقع پر روایتی تاریخی لباس میں ملبوس جنوبی کوریا کے ایک فوجی دستے دونوں رہنماؤں کو سلامی دی۔ اس موقع پر فوجی بینڈ روایتی موسیقی کی دھنیں بجاتا رہا۔
امریکہ نے دونوں کوریاؤں کے درمیان ہونے والے اس رابطے کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے خطے میں امن اور ترقی کی جانب پیش رفت ہوگی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکام کم جونگ ان اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان متوقع ملاقات سے متعلق جنوبی کوریا کے حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔
امکان ہے کہ امریکی صدر اور شمالی کوریا کے سربراہ کے درمیان یہ ملاقات مئی کے اختتام یا جون میں کسی وقت ہوگی۔
تاحال اس مجوزہ ملاقات کے مقام اور حتمی تاریخ کا تعین نہیں ہوا ہے۔