صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اُنھیں توقع ہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن سے ’’بہت ہی جلد‘‘ ملاقات ہوگی؛ اور کِم کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ’’کشادہ دل‘‘ اور ’’انتہائی معزز‘‘ شخص ہیں۔
منگل کے روز فرانس کے صدر امانیوئیل مکخواں سے بات چیت کے بعد، ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہمیں براہِ راست بتایا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا کے لیے ایک بڑی بات ہوگی‘‘۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ ’’ہمیں انتظار رہے گا کہ یہ سارا سلسلہ کہاں تک جاتا ہے‘‘۔ اُنھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات سے اٹھ کھڑے ہوں گے، لیکن زور دے کر کہا کہ ’’ہمارے پاس کچھ خاص کر گزرنے کا ایک موقع ہے‘‘۔
وائٹ ہاؤس کہہ چکا ہے کہ ٹرمپ اور کِم کے مابین مذاکرات کا اصل ہدف جوہری ہتھیاروں کی تخفیف ہی ہوگا۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا کے خلاف ’’شدید دباؤ‘‘ جاری رہے گا اور تنہا رہ جانے والے اس ملک کے خلاف تعزیرات تب تک نہیں اٹھائی جائیں گی جب تک وہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کی جانب ٹھوس قدم نہیں بڑھاتا۔
جب اُن سے پوچھا گیا آیا مکمل تخفیف سے اُن کی کیا مراد ہے، ٹرمپ نے کہا کہ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ بالکل یہی‘‘۔
شمالی کوریا کے حالیہ اعلان کے بارے میں وائٹ ہاؤس پریس سکریٹری سارا ہکابی سینڈرز نے ’وائس آف امریکہ‘ کے سوال پر پیر کے روز کہا کہ ’’ہم شمالی کوریا کو محض اُن کے الفاظ کی بنیاد پر سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’اِس عمل میں ہم اتنے سادہ لوح نہیں۔ ہم نے درست سمت میں لیے گئے کچھ اقدامات دیکھے ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی بہت آگے جانا ہے‘‘۔
کِم نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات منجمد کرنے اور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل داغنے کا عمل بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔