امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا کو اُن کی آشیرباد حاصل ہے کہ وہ 1950 کی دہائی کی کوریائی لڑائی کے خاتمے کے معاملے پر شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرے۔
جاپان کے وزیر اعظم شنزو آبے کے ساتھ منگل کی ملاقات کے بعد ٹرمپ نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’لڑائی ختم کرنے کے لیے اُنھیں میری آشیرباد حاصل ہے‘‘۔
صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ ’’لوگ اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ کوریائی لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ یہ ابھی جاری ہے۔ اور وہ لڑائی کو ختم کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں‘‘۔
اصل لڑائی سنہ 1953 میں اُس وقت بند ہوئی تھی جب امریکہ نے (جو اقوام متحدہ کی افواج کی کمان کر رہا تھا) شمالی کوریا اور چین کے ساتھ ’آرمسٹائس‘ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
دستخط کرنے والوں میں جنوبی کوریا شامل نہیں تھا؛ اور دونوں کوریاؤں نے تب سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے۔
آبے نے شمالی کوریا کے سربراہ، کم جونگ اُن کے ساتھ سربراہ اجلاس کرنے پر رضامندی پر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدام کے لیے ’’ہمت‘‘ درکار ہوتی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’یہ بات چیت غالباً جون کے اوائل میں یا کچھ پہلے ہوگی، اگر معاملات ٹھیک سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ معاملات ٹھیک نہ رہیں، اور ہماری ملاقاتیں نہ ہو سکیں، لیکن ہماری کوشش رہے گی کہ ہم اس راہ پر پختگی سے چلتے رہیں‘‘۔
اس کے فوری بعد، ایک تفصیلی باہمی ملاقات میں ٹرمپ نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ سربراہ اجلاس کی تیاری کے حوالے سے ’’ہم نے شمالی کوریا کے ساتھ براہِ راست بات کا آغاز کیا ہے۔ انتہائی اعلیٰ سطح پر ہمارے براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں‘‘۔
صدر نے شمالی کوریا کے لیے کہا کہ ’’وہ ہماری عزت کرتے ہیں، اور ہم اُن کی عزت کرتے ہیں‘‘۔
آبے نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ ٹرمپ ان معاملات پر بھی کِم سے بات کریں گے جو جاپان کے لیے باعثِ تشویش ہیں، جس میں کئی عشروں سے جاپانی شہریوں کے اغوا کا معاملہ شامل ہے۔
اُنھوں نے امریکی صدر کی تعریف کی کہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کے عزائم اور بیلسٹک میزائل پروگرام کے معاملوں پر صدر ٹرمپ نے ٹھوس مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔