|
اسلام آباد -- پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش میں ہیں اور اس سلسلے میں اسلام آباد میں ایک کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا ہے جسے "قومی کانفرنس' کا نام دیا گیا۔
کانفرنس کے دوران ملک میں جاری سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا ذمہ دار 2024 کے متنازع انتخابات کو قرار دیتے ہوئے آزادانہ، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا گیا ۔
دو روزہ کانفرنس کی میزبانی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کی۔ کانفرنس میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ وکلا، صحافیوں، دانشوروں، شاعر، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
حکومت کے ساتھ مذاکرات میں مشکلات کے بعد اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ نئے اتحاد بنانے کی کوششیں تیز کی تھیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں کو ایجنڈے پر اتفاق اور متفقہ حکمت عملی کی تشکیل میں وقت لگے گا۔ لیکن قومی کانفرنس اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
'پی ٹی آئی کو احساس ہوا ہے کہ تنہا اپنے مقاصد کے لیے حکومت کو مجبور نہیں کر سکتی'
تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو یہ احساس ہوا ہے کہ وہ تنہا اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کو مجبور نہیں کرسکتی ۔لہٰذا و ہ اب ایک اتحاد کی طرف بڑھنا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قومی کانفرنس کے نتیجے میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے کچھ نکات پر اتفاق کیا ہے تاہم اس سے پی ٹی آئی کا مقصد پورا نہیں ہوتا ہے۔
ان کے بقول حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں نے عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئےخطوط پر تحفظات ظاہر کیے ہیں اور شاہد خاقان عباسی تو اعلانیہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے نہیں جارہے ہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان بھی ابھی تک پی ٹی آئی سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں اور ایسے میں مستقبل قریب میں حزب اختلاف کا اتحاد بنتا دکھائی نہیں دیتا۔
'مولانا نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہوئے ہیں'
تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں متفقہ ایجنڈے کی تلاش میں ہیں تاکہ کم سے کم نکات پر اتفاق کرکے آگے بڑھا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ ایجنڈا اور حکمتِ عملی پر اتفاق رائے کے لیے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو مزید وقت چاہیے ہو گا تاکہ وہ ایسی نشستوں کے ذریعے آپسی ہم آہنگی لا سکیں۔
وہ کہتے ہیں کہ حزب اختلاف کا گرینڈ الائنس ابھی دور دکھائی دیتا ہے کیوں کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنے آپشنز کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
حسن عسکری کے بقول مولانا فضل الرحمان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ اس وقت تک حزب اختلاف کے اتحاد سے فاصلہ رکھیں جب تک ان کے تمام تحفظات دور نہیں ہو جاتے اور انہیں یقین نہیں ہو جاتا کہ یہ اتحاد ان کے سیاسی مفادات کو پورا کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے حال ہی میں 26 ویں آئینی ترمیم میں مدارس سے متعلق قانون منظور کرایا ہےاور اب وہ چاہتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیاں بھی اسے منظور کریں جو کہ حکومت کی مدد سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
'قومی کانفرنس' سے متعلق اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس کانفرنس کو روکنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ شاہد خاقان عباسی کے بقول حکومت کی رکاوٹوں کی باعث کانفرنس کے مقام کو تین مرتبہ تبدیل کرنا پڑا۔
کانفرنس کے دوسرے دن عاصمہ جہانگیر آڈیٹوریم کو بند کر دیا گیا تھا جس کے بعد اپوزیشن رہنماؤں نے احتجاجاً ہوٹل کی لابی میں کانفرنس کا انعقاد کیا۔
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ماضی میں اپوزیشن اتحاد کسی اشارے پر ہی بنا کرتے تھے اور موجودہ حالات میں ایسا کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان یہ دوری بھی ہے کہ باقی جماعتیں حکومت کو ہدف تنقید بنانا چاہتی ہیں جب کہ پی ٹی آئی فوج کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔
سلمان غنی کے بقول پی ٹی آئی اپنے آپشنز آزما چکی ہے اور اب اس کے پاس زیادہ کچھ کرنے کو نہیں ہے سوائے اس کے کہ مولانا فضل الرحمان انہیں سڑکوں پر عوامی طاقت فراہم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی عوام میں ساکھ کوئی حوصلہ افزا نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت کو مستقبل قریب میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
پروفیسر حسن عسکری کے مطابق حکومت میں اعتماد کی کمی دکھائی دیتی ہے اور اسی وجہ سے اپوزیشن کی قیادت کے اجلاس کو بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔
ان کے بقول حکومت اسی وجہ سے یہ ردِ عمل دے رہی ہے اور اسے معلوم ہے کہ عام آدمی کی سطح پر ان کا تاثر کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ اگر حزب اختلاف کا اتحاد بن گیا تو یہ درد سر بن جائے گا اور کچھ عرصے بعد حکومت کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کرسکتا ہے۔
'یہ کوئی جلسہ یا جلوس نہیں بلکہ ایک بند کمرے میں ہونے والی کانفرنس تھی'
سابق سینیٹر اور انسانی حقوق کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ "یہ کوئی جلسہ یا جلوس نہیں بلکہ ایک بند کمرے میں ہونے والی کانفرنس تھی۔ مگر حکومت نے عاصمہ جہانگیر آڈیٹوریم کو تالے لگا دیے جس سے اس کی اپنی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ اس کانفرنس کا مقصد تھا کہ سیاسی و اظہارِ رائے کی آزادیوں، انسانی حقوق کی آئین میں دی گئی ضمانت اور وفاقیت کو درپیش خطرات کا حل نکالیں اور اس مقصد کے لیے ایک قومی ایجنڈا تشکیل دیں۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ حکومت کی اپنی ساکھ کا مسئلہ اس قدر ہے کہ وہ کوئی تنقیدی آواز سننے کو تیار نہیں ہے اور اس لیے حکومت پیکا جیسا متنازع قانون لائی جس پر صحافی سراپا احتجاج ہیں، اس کے علاوہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو بھی تابع کر لیا گیا ہے۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ "سیکیورٹی فورسز کو اس فریم میں لانا ہوگا جہاں دنیا کی دیگر افواج موجود ہیں۔" انہوں نے زور دیا کہ تمام سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کا عہد کریں۔
محمود خان اچکزئی نے تحریکِ انصاف کے بانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "فارم 47 کی بنیاد پر بنی اسمبلی میں نہ بیٹھیں بلکہ ایک الگ اسمبلی بنائیں جس کے اسپیکر اسد قیصر ہوں گے۔"
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے کہا کہ ہم آئین پاکستان اور قانون کی بالادستی کے لیے کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک اس وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے۔
حکومت کا ردِعمل
حکومت نے اپوزیشن کی کانفرنس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نےاس کانفرنس سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ "نہ نو من تیل تھا، نہ رادھا ناچی! اگر ہزاروں کا مجمع تھا تو ویڈیوز کہاں ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ چند افراد ایک آڈیٹوریم میں جمع ہوئے اور اسے 'قومی کانفرنس' کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "قانون کا علمبردار کہنے والے خود قانون کے دائرے سے باہر نکل کر دباؤ ڈالنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ حکومت آئین اور جمہوریت کے مطابق کام کر رہی ہے۔ مگر چند لوگ محض سیاسی تماشہ لگانا چاہتے ہیں!"
کانفرنس کا اعلامیہ
کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملک کو درپیش بحرانوں کا واحد حل آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی میں ہے۔ کانفرنس کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ تمام سیاسی اسیروں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور اظہارِ رائے کی آزادی پر عائد قدغنیں ختم کی جائیں۔
اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ آئین سے متصادم تمام ترامیم ختم کی جائیں۔ خاص طور پر پیکا ایکٹ جسے اپوزیشن نے عوام اور صحافیوں کی زبان بندی کا قانون قرار دیا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ کانفرنس میں شریک جماعتیں اپنے مطالبات کے حق میں اجتماعی عملی جدوجہد جاری رکھیں گی اور ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے ایک متفقہ قومی حکمت عملی تیار کرکے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
فورم