ویب ڈیسک _ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (یو ایس اے جی ایم) نے جمعرات کو اعلان کیا ہے کہ صحافت سے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والی کیری لیک ایجنسی میں بطور خصوصی ایڈوائزر ذمے داریاں سنبھالیں گی۔
تیس سالہ صحافتی تجربہ رکھنے والی کیری لیک کے بارے میں صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس دسمبر میں کہا تھا کہ وہ اُنہیں وائس آف امریکہ کی سربراہی سونپیں گے۔
صدر ٹرمپ نے یو ایس اے جی ایم کے سربراہ کے لیے مصنف ایل برینٹ بوزیل تھری کا انتخاب کیا ہے جو سینیٹ سے توثیق کے منتظر ہیں۔
یو ایس اے جی ایم میں بائی پارٹیزن بورڈ کا قیام بھی عمل میں آنا باقی ہے جوسی ای او کے ساتھ مل کر مختلف عہدوں پر تعینات نیٹ ورک کے سربراہان کی تبدیلیوں و تعیناتیوں سمیت مختلف معاملات پر کام کرتا ہے۔
یو ایس اے جی ایم کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے رومن نیپولی نے بذریعہ ای میل عملے کو ایجنسی میں کیری لیگ کی آمد سے متعلق آگاہ کیا ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر اس سے قبل امانڈا بینیٹ خدمات انجام دے رہی تھیں جنہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
نیپولی نے ای میل میں لکھا کہ کیری لیک براڈ کاسٹ جرنلزم کا ایک وسیع تجربہ لائیں گی۔ وہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے بڑے میڈیا اداروں میں بطور اینکر اور رپورٹر وابستہ رہی ہیں۔
کیری لیک کے کریئر کا ذکر کرتے ہوئے نیپولی نے ای میل میں کہا کہ لیک کئی رہنماؤں کے انٹرویوز کر چکی ہیں جن میں دو امریکی صدور بھی شامل ہیں جب کہ انہیں انٹرنیشنل رپورٹنگ پر دو ایمی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔
ای میل کے مطابق کیری لیک صدر ٹرمپ کی حکومت میں بطور سینئر ایڈوائزر یو ایس اے جی ایم کو منظم کرنے کے لیے ضروری پالیسیاں نافذ کرنے میں مدد کریں گی۔
یو ایس اے جی ایم حکومتی فنڈنگ سے چلنے والا ادارہ ہے جس کے تحت وائس آف امریکہ سمیت میڈیا کے پانچ ادارے چلتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے علاوہ مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس، ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی، ریڈیو فری ایشیا اور آفس آف دی کیوبا براڈکاسٹنگ یو ایس اے جی ایم کی زیرِ نگرانی چلتے ہیں۔
اسٹاف کو بھیجی گئی ای میل میں نیپولی نے کہا کہ لیک کا تجربہ دنیا بھر میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو واضح اور مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے ہمارے مشن کو جاری رکھنے میں اہم ہو گا۔
ایک ایڈیٹوریل فائر وال 'یو ایس اے جی ایم' کو اس کے زیرِنگرانی صحافتی اداروں کے کام میں مداخلت سے روکتی ہے۔
یو ایس اے جی ایم کی زیرِ نگرانی چلنے والے میڈیا ادارے جنگ عظیم دوم کے دوران نازی جرمنی میں وی او اے کی پہلی براڈکاسٹ کے بعد سے غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان پر مبینہ جانبداری، کوریج، بد انتظامی اور عملے کی سیکیورٹی پڑتال میں خامیوں پر تنقید کا سامنا بھی رہتا ہے۔
کیری لیک نے گزشتہ ہفتے کنزرویٹو پولیٹکل ایکشن کانفرنس میں خطاب کے دوران یو ایس اے جی ایم پر ہونے والی کچھ تنقید کا حوالہ بھی دیا تھا۔
لیک نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ بطور ڈائریکٹر وہ یقینی بنائیں گی کہ وائس آف امریکہ ـ'درست اور ایمان داری' کے ساتھ رپورٹنگ کرے۔
انہوں نے کہا تھا کہ وی او اے 83 برسوں سے دنیا کو امریکہ کی کہانی سنا رہا ہے۔ کبھی اس کی کوریج شاندار اور کبھی یہ قابلِ افسوس رہی ہے۔ ان کے بقول ہم معلومات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں سچ سے بہتر کوئی ہتھیار نہیں اور انہیں یقین ہے کہ وی او اے وہ ہتھیار بن سکتا ہے۔
نیٹ ورک کو بند کرنے کا مطالبہ کرنے والوں میں صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر ایلون مسک بھی شامل ہیں۔
کیری لیک نے کہا کہ "ہم ٹرمپ ٹی وی نہیں بنیں گے، لیکن یہ یقینی طور پر 'ٹی ڈی ایس ٹی وی' بھی نہیں ہو گا۔" ان کا کہنا تھا کہ آپ ٹرمپ کے خلاف جو تنقید دیکھنا چاہتے ہیں وہ سی این این، ایم ایس این بی سی، پی بی ایس، 60 منٹس، دی واشنگٹن پوسٹ اور دی نیویارک ٹائمز پر تلاش کر سکتے ہیں۔
صحافت کا بیک گراؤنڈ رکھنے کے ساتھ ساتھ لیک حالیہ عرصے میں ایک سیاست دان بھی رہی ہیں۔
انہوں نے ایریزونا نیوز اسٹیشن میں ملازمت اس لیے چھوڑ دی تھی کیوں کہ ان کے بقول انہیں محسوس ہوا تھا کہ وہاں عالمی وبا (کرونا) سے متعلق غلط معلومات دی جا رہی تھیں۔ انہیں ایریزونا کے گورنر کے لیے انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور انہوں نے اپنی ہار کو چیلنج بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کی سینیٹر بننے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
فورم