رسائی کے لنکس

ویکسین آنے تک کرونا وائرس کہیں نہیں جائے گا: طبی ماہرین


ریاست ورجینیا میں کاروباروں کو محدود پیمانے پر اجازت ملنے کے بعد الیکزینڈیا میں ایک ریستوران گاہکوں کو عمارت سے باہر سروس فراہم کر رہا ہے۔ 29 مئی 2020
ریاست ورجینیا میں کاروباروں کو محدود پیمانے پر اجازت ملنے کے بعد الیکزینڈیا میں ایک ریستوران گاہکوں کو عمارت سے باہر سروس فراہم کر رہا ہے۔ 29 مئی 2020

پوری دنیا میں کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد ساٹھ لاکھ کے ہندسے سے بڑھ گئی ہے۔

ہفتے کی سہ پہر تک جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 61 لاکھ سے زیادہ ہو چکی تھی۔

امریکہ بدستور مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں سر فہرست ہے۔ جہاں اس مرض میں مبتلا لوگوں کی تعداد 18 لاکھ سے زیادہ ہے۔ جب کہ ایک لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔

برازیل اس فہرست میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، جہاں مریضوں کی تعداد چار لاکھ 70 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے فیرن رابنسن کے مطابق دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ اس وبا کا تباہ کن اثر امریکی ریاست نیوڈا میں کیسینو اور دوسرے کاروباروں ہر بھی پڑ رہا ہے۔ ریاستی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس کی ماہانہ وصولی میں سو فیصد اور سیاحت میں 97 فیصد کمی آئی ہے۔

یہ صورت حال امریکہ کی صرف ایک ریاست کی نہیں ہے بلکہ کم و بیش ہر ریاست، بلکہ ساری دنیا کی ہے، جہاں معیشتوں کی زبوں حالی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وائرس سے کب نجات ملے گی، تو اس بارے میں ماہرین یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کب اور کیسے دنیا کو اس سے چھٹکارہ ملے گا۔ لیکن ماہرین تقریباً اس پر متفق ہیں کہ جب تک کوئی موثر ویکسین نہ آ جائے۔ یہ وائرس زندگی بھر ہی ساتھ رہ سکتا ہے۔

یہ ہی بات یونیورسٹی آف ایدن برگ کے متعدی امراض کے ماہر مارک وول ہاؤس نے برطانوی اخبار گارڈین کو بتائی ہے کہ ویکسین اور سماجی فاصلے پر عمل کئے بغیر اس کی دوسری لہر ایک حقیقی خطرہ ہے۔

یہاں امریکہ میں متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر سہیل چیمہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس خیال سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ وائرس یقیناً اس وقت تک ساتھ رہے گا جب تک کہ ویکسین نہیں آ جاتی اور اس کے مارکیٹ ہونے کے بعد ہر شخص اسے لگوانے پر آمادہ نہیں ہو جاتا۔

انہوں نے کہا کہ اس قسم کے امراض میں انسان کی قوت مدافعت 60 سے 66 فیصد ہونی چاہئیے اور جب تک یہ قوت مدافعت 66 فیصد پر نہ آ جائے گی، یہ خطرہ ختم نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح چیچک سے 30 ملین اموات ہوئیں اور ویکسین آنے کے بعد وہ مرض ختم ہو گیا، اسی طرح اس وائرس کے ساتھ بھی ہو گا اور ویکسین آنے کے بعد یہ ایک طرح سے عام نوعیت کا فلُو وائرس بن کر رہ جائے گا۔

لاک ڈاؤن میں نرمی سے اس مرض کے پھیلاؤ پر اثرات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہرئے انہوں نے کہا کہ اگر لاک ڈاؤن کو محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز میں مرحلہ وار ختم کیا جائے، جیسا امریکہ میں ہو رہا ہے تو پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG