گزشتہ پانچ سال سے جنگ سے تباہ حال اور انسانی بحران سے دوچار یمن سے ایک اور بری خبر آئی ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ملک بھر میں کرونا وائرس وسیع پیمانے پر اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔
عالمی ادارے کے فلاحی کاموں کے سربراہ مارک لوکوک کے مطابق انھیں خبریں مل رہی ہیں کہ تیز بخار اور سانس لینے میں دشواری کے شکار لوگوں کو اسپتال میں داخل نہیں کیا جارہا، کیونکہ یا تو وہ پہلے ہی بھرے ہوئے ہیں یا محفوظ طریقے سے علاج کے قابل نہیں۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ بدقسمتی سے لوگ بیمار ہو رہے ہیں اور گھر پر انتقال کررہے ہیں۔
مقامی حکام کا بھی یہی کہنا ہے کہ روزانہ درجنوں اموات ہورہی ہیں، جن کی وجہ کا تعین نہیں کیا جا رہا۔
جنوبی مغربی صوبے تعز میں عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹر آدم الجیدی نے کہا کہ وبا بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے جہاں پہلے ہی خسرہ، ڈینگی اور چکن گونیا جیسی بیماریاں موجود ہیں۔
ڈاکٹر الجیدی نے کہا کہ مقامی حکام سنجیدگی سے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کررہے جبکہ متحارب دھڑے بدستور لڑائی میں مصروف ہیں جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوئی ہے۔
یمن کا نظام صحت پانچ سال کی جنگ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ صحت عامہ کے محض نصف مراکز کام کررہے ہیں اور ان میں سے بھی بیشتر کے پاس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے عملے، دواؤں اور آلات کی کمی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے کے لیے صحت کے 38 مراکز کو امداد فراہم کی ہے۔ لیکن ان سے آدھے ہی بھرپور خدمات انجام دینے کے قابل ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے قرنطینہ مراکز بھی قائم کیے ہیں، ٹیسٹ کے لیے ہزاروں کٹس منگوائی ہیں اور اسپتالوں کو آکسیجن کی کافی مقدار میں فراہمی کی کوشش کررہی ہے۔
ڈاکٹر الجیدی نے بتایا کہ طعز میں ایک بھی قرنطینہ مرکز نہیں ہے۔ 30 لاکھ آبادی کے شہر میں صرف 16 وینٹی لیٹرز ہیں۔ یمن میں کرونا وائرس کے پہلے مریض کی تصدیق 10 اپریل کو ہوئی تھی اور اب تک 237 کیسز اور 45 اموات کا علم ہوا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مائیک رائن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن کے اعدادوشمار وہاں کی حقیقی صورتحال کی عکاسی نہیں کرتے۔ اگر وائرس نے اس بدحال ملک کو اپنا گڑھ بنالیا تو اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔
یمن میں وائرس پھیلنے کے لیے انتہائی سازگار حالات ہیں۔ بہت سے خاندان ساتھ رہتے ہیں اور ان کے لیے سماجی فاصلہ رکھنا ممکن نہیں۔ بے شمار لوگوں کی صاف پانی تک رسائی نہیں جس کی وجہ سے وہ بار بار ہاتھ نہیں دھو سکتے جو وائرس سے بچنے کے لیے ضروری ہے۔ یونیسیف کی سربراہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس بجٹ کم ہے اور حد یہ کہ لوگوں کو دینے کے لیے صابن تک ختم ہورہا ہے۔
یمن میں یونیسیف کی نمائندہ سارا بیسولو این یانتی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پانچ سال سے کم عمر کے ایک چوتھائی بچے بیمار ہیں جس کا مطلب ہے کہ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی صورت میں ان کی موت کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
جنگ اور بیماریاں ہی کم نہیں تھیں کہ گزشتہ ماہ یمن کے کئی شہروں میں اچانک سیلاب آگیا جس سے مکان تباہ، لوگ بے گھر اور پانی کی فراہمی و نکاسی کی سہولتوں سے محروم ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے فلاحی کاموں کے ادارے نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ صرف کرونا وائرس نہیں بلکہ زندگیاں بچانے کے دوسرے منصوبوں کے لیے بھی تعاون کریں ورنہ اسے کئی پروگرام بند کرنا پڑجائیں گے۔