مشرقِ وسطیٰ کے ملک یمن میں اب تک کرونا وائرس کا ایک کیس سامنے آیا ہے۔ لیکن، اس جنگ زدہ ملک کے کمزور طبی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر یہاں اس وبا نے زور پکڑا تو خطرناک صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
پانچ سالہ خانہ جنگی نے اس ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ اس وقت یمن کی 80 فی صد آبادی کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ضرورت ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک سینئر اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ''ہم یمن میں کرونا وائرس کے سلسلے میں انسدادی اقدامات کے لیے فنڈ کی فراہمی کے لیے راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ اس کے لیے ہمیں متبادل ذرائع مل جائیں گے۔''
اہل کار نے یہ نہیں بتایا کہ امریکہ یمن کو کتنی فنڈنگ دے گا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ہم با اعتماد صحت کے اداروں کی تلاش میں ہیں جن کے ذریعے یہ امداد یمن تک پہنچائی جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی ادارۂ صحت کو فی الحال ہم استعمال نہیں کرنا چاہتے۔
یاد رہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے ہفتے عالمی ادراۂ صحت کے لیے امریکی امداد روک دی تھی اور اس ادارے کی کارکردگی پر سخت تنقید کی تھی۔
ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ کرونا وائرس کے سلسلے میں عالمی ادارے نے چین کی گمراہ کن اطلاعات کو فروغ دیا ہے۔ اسی لیے عالم گیر سطح پر یہ وبا پھیلی۔
عالمی ادارۂ صحت نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے سال کے شروع میں ہی اس وبائی مرض کے پھیلنے کے بارے میں دنیا کو مطلع کر دیا تھا۔
امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو۔ ایس۔ ایڈ) کے مطابق امریکہ نے اس سال کے مالی سال میں یمن میں خوراک اور صحت کے شعبے کے لیے دو کروڑ ستر لاکھ ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے، جس کی ترسیل عالمی ادارۂ صحت کے ذریعے ہونی ہے۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کے امدادی شعبے کے سربراہ مارک لوکاک نے سلامتی کونسل کو بتایا تھا کہ وبائی امراض کے ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ یمن میں کرونا وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ یمن میں اکتالیس بڑے پروگرام چلا رہی ہے اور اگر ہمیں اضافی فنڈ نہ ملے تو ان میں سے چند کو بند کرنا پڑے گا۔ لوگ اگر بیمار پڑتے ہیں تو علاج کے کلینک بہت کم ہیں۔
لوکاک نے کہا کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی صورت 80 فی صد صحت کی سہولتوں کو بند کرنا پڑے گا۔
بہرحال اس وقت سب سے بڑا خطرہ کرونا وائرس کے امکانی پھیلاؤ کا ہے اور اس کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔