رسائی کے لنکس

بلوچستان میں مبینہ جبری گمشدگیوں کی شکایات؛ لواحقین کے احتجاجی دھرنے


  • ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
  • عیسی خان کے دو بھائی جمیل احمد اور عبدالمنان رواں سال 15 فروری سے بولان کے علاقے مچھ کلی ساتکزئی سے مبینہ طور لاپتا ہو ئے۔
  • بلوچستان کے ضلع حب میں گزشتہ شام ایک بار پھر لاپتا افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا ہے۔
  • بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے چار ہزار افراد کے کیسز مختلف کمشنز کو فراہم کیے گئے ہیں: سربراہ 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز '

کوئٹہ -- بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال 100 سے زائد افراد لاپتا ہوچکے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان میں رواں سال بد امنی کے واقعات میں بھی اسی تواتر سے اضافے کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ قومی شاہراہوں پر آئے روز لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کےاحتجاج اور دھرنوں کے باعث سفری مشکلات بھی پیش آ رہی ہیں۔

'بھائیوں کی مبینہ جبری گمشدگی کے بعد والدہ کو دل کا دورہ پڑا'

عیسی خان کے دو بھائی جمیل احمد اور عبدالمنان رواں سال 15 فروری سے بولان کے علاقے مچھ کلی ساتکزئی سے مبینہ طور لاپتا ہو ئے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہو ئے عیسیٰ خان نے دعویٰ کیا کہ 15 فروری کی شب تین بجے نقاب پوش افراد نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے دونوں بھائیوں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ بھائیوں کے لاپتا ہونے کے بعد ان کی والدہ کو دل کا دورہ پڑا جس کے باعث وہ شدید علیل ہیں اور ہر وقت اپنے دونوں بیٹوں کی واپسی کے لیے دعائیں اور فریاد کرتی رہتی ہیں۔

' ہم سخت پریشان ہیں کہ ہمارے بھائی کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں'

عیسیٰ خان کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے بھائی کوئلے کی کانوں میں مزدوری کرتے ہیں اور غریب ہونے کی وجہ سے وہ بھائیوں کی بازیابی کے لیے احتجاج کر کے سڑکیں بلاک کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔

اُن کے بقول ہم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ' کو اپنے بھائیوں کی مبینہ جبری گمشدگی کے حوالے سے آگاہ کرچکے ہیں تاکہ وہ ان کی بازیابی کے لیے آواز اٹھا سکے۔

لاپتا افراد کے لواحقین کے احتجاجی دھرنے

بلوچستان کے ضلع حب میں جمعرات کو ایک بار پھر لاپتا افراد کے لواحقین نے اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا ہے۔

لواحقین نے بھوانی کے مقام پر کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کردیا۔

مظاہرین کا کہنا ہےکہ حب سے لاپتا ہونے والے چھ افراد کی بازیابی کے لیے گزشتہ ماہ بھی احتجاج کیا گیا جس پر انتظامیہ نے 10 دن کا وقت مانگا تھا۔ لیکن تاحال ان کے پیارے بازیاب نہیں ہوئے اس لیے دوبارہ احتجاج شروع کیا ہے۔

حب کی ضلعی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ مظاہرین کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جلد ہی قومی شاہراہ ٹریفک کے لیے بحالی کی جائے گی۔

اس سے قبل منگل اور بدھ کو کوئٹہ،مستونگ، قلات اور سوراب کے علاقوں میں بھی لاپتا افراد کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے احتجاجی مظاہرے ہوئے اور کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ کو متعدد مقامات پر بلاک کیا گیا ہے۔

'پہلے گمشدگی کا نہیں پتا تھا، اب زندگی کا مقصد والد کی بازیابی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:49 0:00

یہ دھرنا مستونگ سے لاپتا ظہور بلوچ کی بازیابی کے لیے دیا گیا تھا۔

ظہور بلوچ کے بھتیجے زاہد بلوچ نے وائس آف امریکہ بتایا کہ ان کے چچا کو اس سے قبل بھی چار سال تک لاپتا کیا جا چکاہے۔

ان کے بقول "میرے چچا باغبان ہیں اور انہیں بغیر کسی قصور کے لاپتا کیا گیا ہے۔"

بعد ازاں زاہد بلوچ کے چچا جمعرات کو بازیاب ہوگئے جس کے بعد قومی شاہراہ پر جاری دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔

دو ماہ میں 100 افراد لاپتا؟

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز 'کا دعویٰ ہے کہ رواں سال کے پہلے دو ماہ کے دوران صوبے میں مختلف علاقوں سے مبینہ طور پر 100 سے زائد افراد کو جبری طور پر لاپتا گیا ہے۔

وائس آف آمریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے تنظیم کے چئیرمین نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ صرف جنوری میں 55 سے زائد افراد کے لواحقین نے ان سے رابطہ کیا ہے کہ ان کے پیاورں کو مبینہ طور پر جبری لاپتا کیا گیا ہے۔

ان کے بقول فروری میں بھی 45 سے زائد افراد لاپتا ہوئے ہیں۔

نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ صوبے میں جبری گمشدگیوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے ۔

اُن کے بقول " ہم شروع دن سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ اگر کسی کے خلاف کوئی الزام ہے تو اسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا اور اگر وہ ریاست مخالف کسی بھی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو اسے آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔"

نصر اللہ بلوچ کے مطابق بلوچستان میں لاپتا افراد کی تعداد سات ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے چار ہزار افراد کے کیسز مختلف کمشنز کو فراہم کیے گئے ہیں۔

ادھر دو ماہ کے دوران 100 سے زائد افراد کی جبری گمشدگی کے دعوؤں کے حوالے سے جب وائس آف امریکہ نے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند سے بذریعہ وٹس ایپ میسج رابطہ کیا اور انہیں سوالات ارسال کیے۔ مگر ان کی طرف سے اس معاملے پر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

ماضی میں ترجمان بلوچستان حکومت وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ لاپتا افراد کی تلاش کے لیے ایک خصوصی کمیشن موجود ہے اور اگر متاثرہ افراد کے پاس ثبوت موجود ہیں تو وہ کمیشن کو اپنی شکایات درج کرائیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کو تشویش

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے کونسل ممبر حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بلوچستان میں حالیہ دنوں میں نہ صرف پر تشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ لوگوں کی جبری گمشدگیوں کی تعداد بھی بڑھی ہے جو باعث تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں حالیہ واقعات اس مرکزی حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے ہیں جو عوام کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے۔

ان کے بقول بلوچستان کے معاملات کو آئین کے بر خلاف مرکزی سے چلایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔

قومی شاہراہوں کی بندش سے مسافر پریشان

صوبے میں قومی شاہراہوں پر آئے روز دھرنوں کے باعث مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

قومی شاہراہوں کی بندش کے باعث بلوچستان کے عوام کا دوسرے صوبوں تک سفر مشکل ہو گیا ہے اور تاجروں نے الزام عائد کیا ہے کہ بعض نجی ایئر لائنز نے کرایوں میں پناہ اضافہ کر رکھا ہے۔

گزشتہ روز کوئٹہ چیمبر آف کامرس کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی نجی ایئر لائنز کے خلاف کارروائی کرے جو زیادہ کرایہ وصول کر رہی ہیں۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر حاجی اختر کاکڑ نے کہا کہ اگر حکومت نے اقدامات نہ اٹھائے تو وہ نجی ائیر لائنز کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔

واضح رہے کہ کوئٹہ سے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور سندھ جانے والی قومی شاہراہوں پر حالیہ بد امنی کے واقعات کے بعد انہیں سفر کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی تنظیم 'بلوچ یکجہتی کمیٹی' نے کہا ہے کہ گزشتہ دنوں جبری طور پر لاپتا کیے گئے پانچ افراد کی گولیوں سے چھلنی لاشیں سول اسپتال کوئٹہ لائی گئی ہیں۔

تنظیم کے مطابق ان میں سے چار لاشیں کوئٹہ کے علاقے شابان جب کہ ایک کی لاش آواران سے برآمد ہوئی ہے۔

اس کے برعکس بلوچستان پولیس نے دعویٰ کیا کہ شابان کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک حملے کے بعد جوابی کارروائی میں چار دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

حکومت کیا کہتی ہے؟

پاکستان کی حکومت اور سیکیورٹی ادارے ماضی میں یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کے نام بھی لاپتا افراد کی فہرستوں میں شامل رہے ہیں۔

لاپتا افراد کی تنظیم کی جانب سے فراہم کردہ فہرست کے برعکس پاکستان کی وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اب تک صرف دو ہزار افراد لاپتا ہیں۔

حکومت کے مطابق لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن میں 10 ہزار افراد کے لواحقین نے درخواستیں دے رکھی تھی جن میں سے آٹھ ہزار افراد کے کیسز حل ہو چکے ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان کی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ یہ کہہ چکے ہیں کہ "لاپتا افراد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومتی سنجیدگی میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ چار دہائیوں پر محیط ہے اس لیے اس کا فوری حل بھی ممکن نہیں ہے اس معاملے پر اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG