رسائی کے لنکس

سات مسافروں کی ہلاکت؛ بلوچستان میں شناخت کے بعد قتل کے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں؟


  • بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے یا غیر بلوچ مزدوروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں۔
  • سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے آبادکاروں کے خلاف مہم کا آغاز 1970 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کر دیا تھا۔
  • گزشتہ برس بھی بلوچستان بھر میں اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں سب سے اندوہناک واقعہ اگست میں بلوچستان اور پنجاب کی سرحد کے قریب ضلع موسیٰ خیل میں پیش آیا تھا۔
  • گزشتہ سال بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے کا بنیادی ہدف سیکیورٹی فورسز رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں بھی شدت آئی ہے: رپورٹ

کراچی -- پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو بسوں سے اُتار کر قتل کرنے کے واقعے نے صوبے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر پھر سوال اُٹھا دیے ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بلوچ علیحدگی پسند سیکیورٹی فورسز اور چینی باشندوں کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں خصوصاً پنجاب سے آنے والے مزدوروں اور مسافروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔

بلوچستان میں غیر بلوچ مزدوروں اور مسافروں کو نشانہ بنانے کا واقعہ منگل کی شب بارکھان میں پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے بلوچستان کو ڈیرہ غازی خان سے ملانے والی شاہراہ پر مسافر بسوں کو روکا۔ اس دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو شناخت کر کے قتل کر دیا گیا۔

بلوچستان میں مسلح افراد کی جانب سے مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں مارنے یا غیر بلوچ مزدوروں کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں۔ البتہ ابھی تک کسی بھی گروہ یا فرد کی جانب سے اس حملے کی باقاعدہ ذمے داری قبول نہیں کی گئی۔

اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات میں31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب مسلح افراد کی جانب سے کوئٹہ کراچی شاہراہ پر پنجگور سے آنے والی ایک بس پر فائرنگ سے 17سیکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔

اس حملے کی ذمے داری برطانیہ میں مقیم حربیار مری سے وابستہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دھڑے نے قبول کی تھی۔

پچھلے سال بھی بلوچستان بھر میں اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہوئے جن میں سب سے اندوہناک واقعہ اگست میں بلوچستان اور پنجاب کی سرحد کے قریب ضلع موسیٰ خیل میں پیش آیا تھا۔

پولیس رپورٹس کے مطابق کم از کم 23 افراد کو ان کی گاڑیوں سے زبردستی اتارا گیا اور انہیں شناخت کے دوران پنجابی معلوم ہونے پر قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کی ذمے داری بلوچ لبریشن آرمی بشیر زیب گروپ نے قبول کی تھی۔

اکتوبر میں بلوچستان کے ضلع پنجگور میں نامعلوم افراد نے رہائشی عمارت میں گھس کر فائرنگ کرتے ہوئے سات مزدوروں کو قتل کردیا تھا جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔

اپریل میں نوشکی میں کوئٹہ اور ایران کی سرحد پر واقع پاکستانی شہر تفتان کے درمیان شاہراہ پر ایک بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافر وں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔

اپریل ہی میں ساحلی شہر گوادر کے علا قے سربندر میں مسلح افراد نے ایک کمرے میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں سات مزدور زند گی کی بازی ہار گئے تھے۔

غیربلوچ مزدوروں پرحملوں میں تیزی کیوں؟

بلوچستان کی شورش کا تجزیہ کرنے والے تھنک ٹینک اور ماہرین کا کہناہے کہ حالیہ عرصے میں پنجاب کے مزدوروں اور مسافروں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹیڈیز کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں بالخصوص بی ایل اے کا بنیادی ہدف سیکیورٹی فورسز رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں میں بھی شدت آئی ہے۔

رپورٹ میں تجزیہ کیا گیاہے کہ بی ایل اے شروع ہی سے غیر بلوچ افراد، خاص طور پر پنجابیوں اور سندھیوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔ مگر حال ہی میں اپنائی جانے والی نئی حکمتِ عملی کے تحت وہ بلوچستان کی اہم شاہراہوں پر مسافر بسوں اور ٹرکوں کو روکتی ہے اور شناختی کارڈز کے ذریعے شناخت کی تصدیق کے بعد وہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو قتل کر دیتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیاہے کہ یہ حملے کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان تناؤ کو بڑھانے کی ایک منظم کوشش کا حصہ ہے کیوں کہ ان تنظیموں کی بقا پنجاب کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے میں مضمر ہے۔

'علیحدگی پسند تنظیمیں ریاست مخالف شورش کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں'

بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے وابستہ محقق اور تجزیہ کار دوست محمد بڑیچ کا کہناہے کہ کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو نشانہ بنا کر ریاست کے خلاف شورش کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔

اُن کے بقول بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں یہ بھی سمجھتی ہیں کہ پنجابی باشندے وفاقی حکومت یا فوج کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ تنظیمیں ان مزدوروں کو سیکیورٹی فورسز کے ایجنٹ یا مخبر ہونے کے شبہے میں نشانہ بناتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ تنظیمیں پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدرووں جیسے "سافٹ ٹارگٹس" کو نشانہ بنا کر ملکی سطح پر ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ برس نوشکی میں اس نوعیت کی کارروائی کے بعد بی ایل اے نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار سادہ لباس میں بس میں سفر کر رہے تھے۔ تاہم میڈیا رپورٹس اور بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ متاثرہ افراد بلوچستان کے راستے ایران اور پھر یورپ جانے کے لیے سفر کر رہے تھے۔

سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس ار اے) نامی ایک کالعدم علیحدگی پسند تنظیم پنجاب کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے باشندوں اور مزدوروں کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔

خیال رہے کہ ایس آر اے کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے 'براس' نامی اتحاد کا حصہ بھی ہے جس میں اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، بشیر زیب کی بی ایل اے، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی (جو بعد میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی بنی) اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز شامل ہیں۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد پر حملوں کی تاریخ

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں پنجاب سے آنے والے آبادکاروں کے خلاف مہم کا آغاز 1970 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب وزیراعلیٰ عطاء اللہ مینگل کی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو ذوالفقار علی بھٹو نے برطرف کر دیا۔ تاہم اس دور میں اس مہم میں تشدد کا عنصر شامل نہیں تھا۔

بلوچستان کے تناظر میں "آبادکار" ان افراد کو کہا جاتا ہے جو کئی دہائیوں سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ کے مختلف علاقوں سے روزگار اور کاروبار کی غرض سے مستقل طور پر کوئٹہ میں مقیم ہیں۔

کوئٹہ میں تعینات ایک سیکیورٹی افسر کے مطابق بلوچستان خصوصاًً کوئٹہ میں غیر بلوچ آباد کاروں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں 2006 میں اس وقت شدت اختیار کر گئیں جب ایک فوجی آپریشن کے دوران بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی ہلاک ہو ئے۔

ان حملوں میں سیاسی رہنماؤں، اساتذہ اور کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی نشانہ بنے۔ تاہم گزشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ شہر میں ایسے حملے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

البتہ بلوچستان کی شاہراہوں پر بسوں اور ٹرکوں سے مسافروں کو اتار کر ان کی شناخت کی بنیاد پر قتل کرنے کے واقعات میں حالیہ برسوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایسے واقعات میں زیادہ تر نشانہ بننے والے افراد کا تعلق رحیم یار خان، بہاولپور اور منڈی بہاؤالدین سے ہوتا ہے۔ یہ مزدور زیادہ تر بلوچستان میں تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سڑکوں و عمارتوں کی تعمیر میں دیہاڑی پر مزدوری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں حجام، درزی، مستری اور ترکھان بھی شامل ہوتے ہیں۔

پنجاب سے بلوچستان کا سفر کرنے والوں میں ایران میں مذہبی زیارتوں کے لیے جانے والے زائرین اور ایران و ترکیہ کے راستے یورپ جانے کے خواہش مند افراد بھی شامل ہوتے ہیں جو بلوچستان کی ایران کے ساتھ سرحد استعمال کرتے ہیں۔

بلوچستان میں سڑکوں کی تعمیر کے شعبے سے وابستہ محمد فیاض کا کہنا ہے کہ صوبے میں انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے بڑی تعداد میں مزدور درکار ہوتے ہیں جس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ٹھیکے دار پنجاب، خصوصاً جنوبی پنجاب اور شمالی سندھ کے پسماندہ اضلاع سے مزدور لے کر آتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ حالیہ حملوں کے باعث پنجاب کے مزدور بلوچستان آنے سے گریز کر رہے ہیں مگر غربت کی وجہ سے مزدوروں کی آمد کا سلسلہ مکمل طور پر رک نہیں سکتا۔

ان کے مطابق خیبرپختونخوا کے پسماندہ اضلاع، خصوصاً شانگلہ سے بھی بڑی تعداد میں مزدور کوئلے اور دیگر معدنی کانوں میں کام کے لیے آتے ہیں جو اب شدت پسند تنظیموں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

14 فروری کو بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی گاڑی کے قریب ہونے والے بم دھماکے میں 11 مزدور ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

اس سے قبل گزشتہ برس اکتوبر میں بلوچستان کے ضلع دُکی میں نامعلوم شدت پسندوں کے حملے میں 20 کان کن ہلاک اور سات زخمی ہو گئے تھے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG