رسائی کے لنکس

پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی میں 29 برس کیوں لگے؟


  • پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال، نائن الیون اور پھر سری لنکن ٹیم پر حملے کی وجہ سے پاکستان آئی سی سی ایونٹس سے محروم رہا، سابق چیئرمین پی سی بی
  • سیکیورٹی حالات کی وجہ سے اندرونی معاملات کو سنبھالنا زیادہ ضروری تھا۔ ایسے میں آئی سی سی ایونٹس کے لیے بڈنگ کرنا بہت مشکل تھا، توقیر ضیا
  • پاکستان کو 2008 کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی تھی لیکن سیکیورٹی حالات کی وجہ سے وہ ایونٹ کی میزبانی سے محروم رہا، اسپورٹس تجزیہ کار
  • پاکستان 2011 کے ورلڈ کپ کا بھی مشترکہ میزبان تھالیکن 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملے کی وجہ سے وہ اس سے بھی محروم رہ گیا، عمر فاروق
  • سری لنکن ٹیم پر حملے نے پاکستان کرکٹ کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا، سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود

لاہور -- سترہ مارچ 1996 کو تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرے قذافی اسٹیڈیم میں جب سری لنکن ٹیم کے کپتان ارجونا رانا ٹنگا نے گلین میک گرا کی گیند پر تھرڈ مین پر چوکا لگا کر اپنی ٹیم کو عالمی چیمپئن بنایا تو یہ سری لنکا کی کرکٹ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ وہ آخری موقع تھا جب پاکستان نے کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی کی تھی۔

پاکستان اس سے قبل نہ صرف 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کر چکا تھا بلکہ یہ وہ دور تھا جب آئی سی سی ایونٹس کے علاوہ پاکستان میں بین الاقوامی ٹیمیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آتی تھیں۔

جب 1996 میں اُس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے رانا ٹنگا کو ٹرافی تھمائی تو شاید کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ آئی سی سی کا اہم ممبر ہوتے ہوئے پاکستان کو دوبارہ کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی میں 29 برس لگ جائیں گے۔

لیکن آنے والے وقت میں پیش آنے والے عالمی واقعات اور پاکستان کے سیکیورٹی حالات کی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) پاکستان کو کسی آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی دینے سے کتراتی رہی۔

گو کہ اس دوران پاکستان میں دو طرفہ سیریز کا انعقاد ہوتا رہا ہے۔ لیکن آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو طویل انتظار کرنا پڑا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نے جہاں پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق سوالات کھڑے کیے تو وہیں مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے نے تو بظاہر پاکستان پر کرکٹ کے دروازے ہی بند کر دیے۔ یہ وہ وقت تھا جب کینیا اور زمبابوے جیسی ٹیمیں بھی پاکستان آنے سے کتراتی تھیں۔

بعض ماہرین آئی سی سی میں بھارتی کرکٹ بورڈ کے اثر و رسوخ اور دیگر معاملات کو بھی آئی سی سی ایونٹس کی پاکستان سے دُوری کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) توقیر ضیا کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی صورتِ حال، نائن الیون اور پھر سری لنکن ٹیم پر حملے کی وجہ سے پاکستان آئی سی سی ایونٹس سے محروم رہا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اُن حالات میں اندرونی معاملات کو سنبھالنا زیادہ ضروری تھا۔ ایسے میں آئی سی سی ایونٹس کے لیے بڈنگ کرنا بہت مشکل تھا۔

توقیر ضیا 1999 سے 2003 تک پی سی بی کے سربراہ تھے۔یہ وہی دور تھا جب نیوزی لینڈ نے اپنی کرکٹ ٹیم کو ایونٹ کے دوران ہی واپس بلا لیا تھا۔

پاکستان: آئی سی سی ایونٹ کے انعقاد میں 29 سال کیوں لگ گئے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:31 0:00

مئی 2002 میں کراچی کے جس ہوٹل میں نیوزی لینڈ ٹیم مقیم تھی، اس کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

توقیر ضیا کے مطابق جس دور میں وہ بورڈ کے سربراہ تھے، پاکستان کرکٹ ٹیم پر میچ فکسنگ الزامات لگے تھے اور جسٹس قیوم کی رپورٹ نے بھی تہلکہ مچا رکھا تھا۔

نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ کے الزامات سامنے آنے پر صدرِ پاکستان کی ہدایت پر لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ملک قیوم پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا تھا جس نے اپنی سفارشات میں سابق کپتان سلیم ملک اور فاسٹ بالر عطاء الرحمن پر تاحیات پابندی عائد کی تھی۔

کمیشن نے وسیم اکرم کو تین لاکھ روپے جرمانہ اور کپتانی سے ہٹانے کی بھی سفارش کی تھی۔ کمیشن نے وقار یونس، مشتاق احمد، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انور کو بھی جرمانے کیے تھے۔

امریکہ میں ہونے والے نائن حملوں اور اس کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے اثرات براہِ راست پاکستان پر پڑنے لگے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

اسپورٹس تجزیہ کار عمر فاروق کہتے ہیں کہ اس عرصے کے دوران پاکستان کو 2008 کی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی، لیکن اسی وقت پاکستان میں خود کش حملے اور دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھ رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا اور پھر اس چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی جنوبی افریقہ کے سپرد کی گئی جس کا انعقاد 2009 میں ہوا تھا۔

عمر فاروق کہتے ہیں کہ پاکستان 2011 کے ورلڈ کپ کا بھی مشترکہ میزبان تھالیکن 2009میں سری لنکن ٹیم پر حملے کی وجہ سے وہ اس سے بھی محروم رہ گیا تھا۔

2009 میں کیا ہوا تھا؟

سال 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور وہ تین مارچ کو پاکستان کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ کے تیسرے دن کے کھیل کے لیےہوٹل سے قذافی اسٹیڈیم جا رہی تھی کہ مسلح دہشت گردوں نے ٹیم کی بس پر فائرنگ کر دی۔

اس حملے میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کےچھ کھلاڑی زخمی اور پولیس کے پانچ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود کہتے ہیں کہ سری لنکن ٹیم پر حملے نے پاکستان کرکٹ کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد آئی سی سی ایونٹس تو درکنار دوسرے ممالک کی ٹیموں نے بھی پاکستان آنے سے انکار کر دیا تھا۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئی سی سی ایونٹس کی واپسی کے لیے پی سی بی کی انتظامی کمزوریاں بھی مشکلات کا باعث بنتی رہی ہیں۔ بورڈ چیئرمین کا بار بار بدلنا بھی اس کی ایک وجہ ہے کیوں کہ ہر کسی کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔

خالد محمود کے مطابق سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد جب آئی سی سی ایونٹس کے لیے بڈنگ ہوتی تو پی سی بی چیئرمین اس پوزیشن میں نہیں ہوتا تھا کہ وہ بڈنگ کر سکے۔

سابق چیئرمین پی سی بی توقیر ضیا کے خیال میں بھارت بھی پاکستان کے لیے ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔

اُن کے بقول بھارت ہر محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور کیوں کہ بھارت امیر کرکٹ بورڈ ہے اور اس کی عالمی سطح پر بات سنی جاتی ہے۔

پاکستان کو اب میزبانی کیسے ملی؟

پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی 2021 میں ملی تھی جب رمیز راجہ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔

عمر فاروق کہتے ہیں کہ آئی سی سی کے رُکن ممالک کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پاکستان بین الاقوامی کرکٹ کے لیے محفوظ ملک ہے۔

اس دوران آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ سمیت تمام بڑی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی تھیں۔

عمر فاروق کہتے ہیں کہ سوائے بھارت کے چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے آنے والی سات میں سے چھ ٹیموں نے پاکستان آنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک طرح سے انگلینڈ، جنوبی افریقہ، افغانستان، بنگلہ دیش، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے بھارت کو 'ووٹ آؤٹ' کیا اور اس سے پاکستان کو چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی۔

پاکستان بھارت تعلقات

توقیر ضیا کہتے ہیں کہ جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات نسبتاً بہتر تھے تو 1987 اور 1996 میں دونوں نے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کی تھی۔ لیکن دو دہائیوں کے دوران بھارت ایک بہت بڑی کرکٹ اکانومی بن کر اُبھرا اور پھر اس نے پاکستان کو نظرانداز کر کے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر 'بگ تھری' بنانے کی کوشش کی۔

خیال رہے کہ 2014 میں آئی سی سی کے انتظامی و مالی معاملات پر زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بھارت نے آسٹریلیا اور انگلینڈ کے ساتھ مل کر 'بگ تھری' کی تجویز پیش کی تھی جسے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔

اس قرارداد کی منظوری کے بعد کرکٹ کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان تینوں ملکوں کے کرکٹ بورڈز کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

آئی سی سی کے 10 میں سے آٹھ ارکان نے اس تجویز کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم پاکستان اور سری لنکا نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا تھا۔

فورم

XS
SM
MD
LG