|
ویب ڈیسک — بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں پولیس نے درجنوں دکانوں پر چھاپے مار کر ایک معروف اسکالر کی کتابوں کی سینکڑوں کاپیاں ضبط کر لی ہیں۔ پولیس کی کارروائی کے خلاف مسلم رہنماؤں نے غصے کا اظہار کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ "ایک کالعدم تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم سے متعلق مصدقہ معلومات پر" دکانوں کی تلاشی لی گئی۔
افسران کی جانب سے کتابوں کے مصنف کا نام نہیں بتایا گیا ہے۔لیکن اسٹور مالکان کا کہنا ہے کہ پولیس نے جماعتِ اسلامی کے بانی اور بیسویں صدی کے معروف اسکالر سید ابو الاعلیٰ مودودی کے لٹریچر کو ضبط کیا ہے۔
سادہ لباس افسران نے ہفتے کو کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں چھاپے مارے جس کے بعد مسلم اکثریتی خطے کے دیگر حصوں میں بھی کتابوں کو ضبط کرنے کی کارروائیاں کی گئیں۔
کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جس پر بھارت اور پاکستان کا الگ الگ کنٹرول ہے۔ دونوں فریق پورے کشمیر پر اپنا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس علاقے میں مسلح گروپس برسوں سے بھارتی فورسز کے خلاف لڑ رہے ہیں اور تنازع میں ہزاروں لوگ مارے جا چکے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے سال 2019 میں کشمیر میں جماعت اسلامی پر "غیر قانونی تنظیم" کے طور پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کی تھی۔
حکومت نے جماعتِ اسلامی پر ملک دشمن اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا اور ایک سرکاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے جو ریاست کی اندرونی سلامتی اور عوامی نظم وضبط کے خلاف ہیں۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جماعتِ اسلامی کے عسکری تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ یہ تنظیم جموں و کشمیر سمیت دیگر مقامات پر انتہا پسندی اور عسکری کارروائیوں کی حمایت کرتی ہے ۔
بعد ازاں نئی دہلی نےگزشتہ سال اس پابندی میں مزید پانچ سال کی توسیع کی تھی۔ وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر پابندی میں توسیع وزیرِ اعظم نریندر مودی کے دہشت گردی اور علیحدگی کے حوالے سے عدم رواداری کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی ایک کڑی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر پر پانچ سال پہلے پابندی عائد کرنے کے باوجود یہ تنظیم ملک کی سیکیورٹی، سالمیت اور خود مختاری کے خلاف سرگرمیاں جاری رکھنے کی مرتکب پائی گئی ہے۔
جماعتِ اسلامی پر پابندی کے نتیجے میں ان کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا تھا , اس سے منسلک تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا تھا اور اس کی سرگرمیاں محدود کردی گئی تھیں۔
سرینگر میں ایک بک شاپ کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ "وہ (پولیس) آئے اور ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف کردہ کتابوں کی تمام کاپیاں یہ کہہ کر لے گئے کہ ان پر پابندی ہے۔"
پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ کتابیں قانونی ضابطوں کے خلاف تھیں اور ایسا مواد رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں "جماعتِ اسلامی سے منسلک ممنوعہ لٹریچر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کی گئیں۔"
پولیس کے چھاپوں پر جماعتِ اسلامی کے حامیوں نے غصے کا اظہار کیا ہے۔
جماعتِ اسلامی کے رہنما شمیم احمد ٹھوکر کا کہنا ہے کہ "ضبط شدہ کتابیں اچھے اخلاقی اقدار اور ذمے دار شہری ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔"
کشمیر کی حقِ خود ارادیت کی حمایت کرنے والے ایک معروف رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔
عمر فاروق نے ایک بیان میں کہا ہےکہ اسلامک لٹریچر پر پابندی لگانا اور انہیں ضبط کرنا مضحکہ خیز ہے۔ ان کے بقول یہ لٹریچر آن لائن دستیاب ہے۔
اس رپورٹ میں شامل بعض معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔
فورم