کراچی کے ساحل پر عام طور ہر تعطیل پر رش ہوتا ہے۔ لیکن یہ تفریحی مقام صرف انہیں دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی خبروں کا حصہ ہوتا ہے۔
ساحل پر آلودگی کے باعث مختلف سماجی تنظیمیں اس کی صفائی کا کام کرتی رہتی ہیں۔ البتہ ساحل کا بڑا حصہ، جہاں سیر و تفریح کے لیے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان کے مطابق کراچی کے ساحل پر اس وقت آنے والا کچرا زیادہ تر وہ ہے جو بارش کے ذریعے بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔
ان کے بقول کراچی میں 7000 سے 8000 میٹرک ٹن کچرا ایسا ہوتا ہے جو اٹھایا نہیں جاتا۔ نہ ہی لینڈ فل ایریاز میں پہنچایا جاتا ہے۔ یہ کچرا مختلف نالوں کے ذریعے بہہ کر آخر سمندر میں داخل ہو جاتا ہے۔
ان کے بقول ایک زمانہ تھا کہ جب ماہی گیر سمندر کے کنارے شکار کے لیے جال ڈالتے تھے تو ان کے جال میں 99 فی صد مچھلیاں ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب صرف کچرا ہی ان کے جال میں پھنستا ہے۔
معظم خان کے مطابق ساحل کی صفائی کے ذمہ دار مقامی ادارے ہیں۔ البتہ ان سب سے پہلے عام شہری بھی ذمہ دار ہیں جو یہ کچرا پھینک رہے ہیں۔ کیوں کہ عام شخص کچرا کہیں بھی پھینک دیتا ہے۔ جو اداروں کی جانب سے نہ اٹھایا جائے تو کسی نہ کسی صورت میں سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں روزانہ 13000 ہزار میٹرک ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے جب کہ 8000 میٹرک ٹن اٹھایا جاتا ہے۔ 7000 میٹرک ٹن ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگر سب اس کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں تو ساحل پر آلودگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ساحل پر مکڈونلڈ ریسٹورنٹ سے لے کر دو دریا تک کا علاقہ سی بی سی کی حدود میں آتا ہے جس کی صفائی سی بی سی کا عملہ کرتا رہتا ہے۔
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ساحل پہ گندگی اور کچرے کی نشان دہی کے واقعات پر ان کا کہنا تھا کہ جہاں کچرے کی نشان دہی کی گئی ہے، وہ سی بی سی کی حدود سے باہر ہے۔ اس کی صفائی کی ذمہ داری کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ شنیرا کے ہمراہ سی ویو آئے ہیں۔ ان کے بقول میں سوچ رہا تھا کہ یہاں مزہ آئے گا۔ لیکن میں نے اپنی بیوی کو سی ویو پر لاکر بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی ویو کا حال دیکھیں۔ یہاں کسی کو الزام دینا مقصد نہیں۔ خود کو بحیثیت شہری الزام دینا ہے۔ یہ بہت شرمندگی کا مقام ہے۔ شنیرا پوری دنیا کو کہتی ہیں کہ پاکستان بہت خوب صورت ملک ہے۔ لوگ بہت خوب صورت ہیں۔
انہوں نے ویڈیو میں ساحل پر گندگی دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سارا کچرا سمندر سے آیا ہے جو آپ اس میں ڈالتے ہیں اور وہ اونچی لہروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے۔
اس ویڈیو پیغام کے بعد شنیرا اکرم نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ ہمارا شہر بہت تکلیف میں ہے۔ ہم مدد کے لیے رو رہے ہیں۔ لیکن کوئی ہمیں نہیں سن رہا۔ یہ اب رکنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ ہمارے شہر، اس میں بسنے والے اور ہماری ثقافت کے لیے شرمندگی کا سبب بن رہا ہے۔ ہم ایسے نہیں ہو سکتے۔
گزشتہ برس بھی وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے سی ویو پر پڑی استعمال شدہ سرنجز کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تھیں جس پر خاصا شور شرابا ہوا تھا۔ اب ایک برس بعد پھر سے اس جوڑے نے ساحل کی آلودگی کے مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔
ادارۂ تحفظ ماحولیات (انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی) ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جس کے فرائض میں ماحولیات اور قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنا شامل ہے۔
انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل کہتے ہیں کہ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے ایک قانون 2014 میں بنا تھا جس کے بعد ماحولیات اور سمندری حیات کے تحفظ سے متعلق کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین برس میں 200 کے قریب کارخانوں میں ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے گئے ہیں۔ لیکن ان کے بقول سمندری آلودگی کی بڑی ذمہ داری کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔
نعیم احمد مغل نے کہا کہ ملیر ندی اور لیاری ندی کا آلودہ اور زہریلا پانی سمندر میں پھینکا جا رہا ہے۔ متعلقہ اداروں کو سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے چاہئیں۔
شہر کے پوش علاقے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کلفٹن کے ساحل پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے بھی گندا پانی سمندر میں ڈالا جا رہا ہے۔ ڈی ایچ اے کے پاس اس وقت ایک ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ ہے جو کہ گالف کورس میں لگایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک واٹر کمیشن بنایا تھا جس نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو کہا تھا کہ وہ ڈومیسٹک سیوریج کو ٹریٹ کریں۔ پھر اسے ڈسپوز کریں جس کے بعد ایک ٹریٹمنٹ پلانٹ لیاری ندی میں نصب کیا گیا اور باقی ابھی لگنے ہیں۔
نعیم احمد مغل کے مطابق ڈی ایچ اے انتظامیہ بھی یقین دہانی کرا چکی ہے کہ سمندر میں جانے والے نالے کے لیے نہرِ خیام کی حدود میں ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جائے گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان کہتے ہیں کہ سمندر میں جو ان ٹریٹڈ ساڑھے پانچ سو ملین گیلن پانی روزانہ پھینکا جا رہا ہے، اس میں سیوریج کے ساتھ ساتھ انڈسٹری کا کیمیکل زدہ پانی بھی شامل ہے جس نے سمندر کے ماحول کو شدید متاثر کیا ہے۔
معظم خان نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ اگر اس آلودگی کو بر وقت نہ روکا گیا تو اس کا آبی حیات پر بہت برا اثر پڑے گا اور اس گندے پانی کی مچھلیاں انسانوں کی خوراک بنیں گے جس کے نتائج منفی ہی ہوں گے۔
نعیم احمد مغل کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتِ سندھ نے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو فنڈ بھی دیا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں سات صنعتی زون ہیں جہاں ٹریٹمنٹ پلانٹس لگنے ہیں۔ ان کے لیے جگہ کا تعین بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے نصف فنڈنگ وفاق اور نصف صوبائی حکومت کرے گی۔
نعیم مغل کے مطابق انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے کنٹونمنٹ بورڈ سے کئی بار ماحول کو درپیش خطرات اور اس سے جڑے مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔ لیکن کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے جواب آیا کہ ہم وفاقی ادارہ ہیں اور آپ کو جواب دہ نہیں۔
ان کے بقول سی ویو سے آگے بلاول چورنگی کی جانب سمندری حدود میں آلودگی کے ذمے دار کراچی میونسپل کارپوریشن اور کراچی پورٹ ٹرسٹ ہیں۔ یہ دونوں ادارے مل کر صفائی کا کام کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا کام نہیں جو نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام اداروں کے پاس کام کرنے کے اختیارات بھی ہیں لیکن بات ذمہ داری کے احساس کی ہے۔