کراچی کا میلوں دور تک پھیلا ساحل ملک کی معیشت کے لئے’آب حیات ‘ کی حیثیت تو رکھتا ہی ہے، ساتھ ساتھ، اِس کے وجود سے بہت سی حیران کُن روایات بھی جُڑی ہوئی ہیں۔ گو کہ اِن روایات کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں، لیکن ان پر ’یقین کامل‘ نسل در نسل چلتا چلا آرہا ہے۔ مثلاً بیماری سے نجات، بچوں کے پیدائشی بالوں کو سمندر برد کرنا، تعویذ پانی میں بہانا اور منتوں، مرادوں کی تکمیل کا ذریعہ بھی یہی سمندر بنا ہوا ہے۔
سمندر ۔۔ دیرینہ بیماریوں کا علاج
منوڑا کراچی کا چھوٹا سا جزیرہ ہے، یہاں تک پہنچنے کے لئے کیماڑی سے کشتیوں میں سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں افراد انہی کشتیوں کے ذریعے سمندر عبور کرتے ہیں۔ سمندر عبور کرنے والوں میں زیادہ تعداد یا پکنک منانے والوں کی ہوتی ہے یا ایسے مریضوں کی جو کسی دیرینہ بیماری میں مبتلا ہوں۔ ایسے مریضوں کا اعتقاد یہ ہے کہ سمندر عبور کرنے سے ان کی بیماری دور ہوجائے گی۔
گذشتہ اتوار کو 80سالہ عقیلہ خاتون کے گھر والے بمشکل انہیں سہارا دے کر کسی نہ کسی طرح سے کیماڑی سے منوڑا لیکر گئے۔ کشتی میں سفر کے دوران، اُن کے اہل خانہ نے سمندر میں نذر کے کچھ تعویذ خاتون کے سرپر سے گھما کرسمندر بُرد کئے۔ ساتھ ہی کچھ ناریل، پھیپھڑے اور دیگر سامان بھی سمندر میں پھینکا۔
عقیلہ خاتون کے نواسے نعمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کو دوران گفتگو بتایا کہ اُن کی نانی کافی دنوں سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور تمام علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہیں ہو رہی۔ لہذا، کچھ لوگوں نے اُنہیں سمندر عبور کرنے، نذر اتارنے اور ناریل و پھیپھڑے سمندر میں پھینکنے کا مشورہ دیا ہے۔ نعمان اور دیگر اہل خانہ کو پورا یقین ہے کہ اس طرح ان کی نانی مکمل طور پر صحت یاب ہوجائیں گی۔
منتیں اور مرادیں پوری کرانے کا ذریعہ
پاکستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بھی مکمل یقین رکھتی ہے کہ سمندر منتیں اور مرادیں پوری کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ کسی کے اولاد نہ ہو، کسی کی شادی نہ ہو رہی ہو، کسی کا من پسند رشتہ نہ آرہا ہو، کوئی ملازمت کے لئے پریشان ہو، کسی کو صدقہ دینا ہو ، جائیداد میں حصہ چاہئے ہو ، امیر بننے کی خواہش ہو یا اسی قسم کی کوئی اور منت، مراد، خواہش یا آرزو پوری کرنی ہو تو۔۔۔وہ سمندر کا ہی رخ کرتا ہے۔
کراچی کے ایک کونے میں آباد نیٹی جیٹی کا علاقہ جہاں سمندر کا ایک کنارہ شہر سے جڑتا ہے، وہاں منتوں اور مرادوں کی تکمیل کے لئے ماہانہ لاکھوں افراد آتے ہیں۔ خاص کر خواتین کی تعداد جو تین چوتھائی یا 75فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان خواتین کے اپنی منت اور مرادیں پوری کرنے کے بھی بالکل الگ طریقے ہیں۔ بیشتر خواتین آپ کو تیز دھوپ میں ننگے پاوٴں اور دیر تک ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر منت پوری ہونے کے لئے دعا مانگتی نظر آئیں گی۔
خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی منتوں کی تکمیل کے لئے سورج طلوع ہونے سے رات ڈھلنے تلک یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر سمندر ی مخلوق کے لئے اپنے ساتھ خوراک لاتے ہیں جیسے گندھے ہوئے آٹے کی گولیاں، یا عام آٹا، چاول، چنے، ناریل، گوشت، دالیں اور پھیپھڑے۔ یہ چیزیں جسمانی صدقہ اتار کر مچھلیوں اور دیگر سمندری مخلوق کے لئے سمندر کے حوالے کی جاتی ہیں۔ اس امر کا اعتقاد منتیں اور مرادیں پوری کرانا ہے۔
سینکڑوں افراد منتوں کی تکمیل پر ’فرائض کی ادائیگی‘ کے لئے بھی یہاں کا خوشی خوشی رخ کرتے ہیں۔ ’فرائض کی ادائیگی‘ میں سمندری مخلوق کو غذا کی فراہمی کے علاوہ ’چڑھاوے‘ چڑھانا بھی شامل ہے۔ چڑھاوٴں میں سونا، چاندی اور اس سے بنے زیورات و دیگر قیمتی اشیاٴ سمندر میں پھینک دی جاتی ہیں۔
ضرورت مندوں کا فائدہ
عقیدت مند تو قیمتی اشیاٴ سمندر میں پھینک کر چلے جاتے ہیں لیکن ’ضرورت مند‘ ان سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ سمندر میں چھانگ لگاتے اور سونا چاندی سمیت قیمتی زیورات اور دیگر اشیاء باہر نکال لاتے ہیں جنہیں فروخت کردیا جاتا ہے جبکہ ’چڑھاوے‘ میں استعمال ہونے والی تمام اشیاٴ جیسے آٹا، چاول، چنے، ناریل، گوشت اور دالیں یہیں فروخت ہوتی ہیں۔ کچھ اشیاٴ تو ایسی بھی ہیں جو یہاں بار بار فروخت ہوتی ہیں کیوں کہ انہیں پانی کے مشاق تیراک خراب ہونے سے پہلے ہی باہر نکال لیتے ہیں۔
کڑوے اور کسیلے سچ سے آگاہی
یہ تمام روایات اور ان کی تکمیل بے شک دلچسپ اور بعض لوگوں کے تئیں شائد ’ضروری‘ ہوں۔ لیکن، ان سب کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ سر کے اترے بالوں، تعویذ، گلے سڑے گوشت کے ٹکڑوں اور دھاتی اشیاٴ کے سبب سمندر میلا نہیں، مسلسل ’غلیظ‘ ہو رہا ہے۔ اس کی آلودگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ بے بنیاد عوامی عقائد اور یقین پاکستان کے موجودہ و محدوو سوچ کے حامل معاشرے میں شاید صدیوں تک بدلہ نہیں جاسکتا۔ البتہ، سچ سے آگاہی ضروری ہے جو اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی ہے۔
سمندر ۔۔ دیرینہ بیماریوں کا علاج
منوڑا کراچی کا چھوٹا سا جزیرہ ہے، یہاں تک پہنچنے کے لئے کیماڑی سے کشتیوں میں سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ روزانہ سینکڑوں افراد انہی کشتیوں کے ذریعے سمندر عبور کرتے ہیں۔ سمندر عبور کرنے والوں میں زیادہ تعداد یا پکنک منانے والوں کی ہوتی ہے یا ایسے مریضوں کی جو کسی دیرینہ بیماری میں مبتلا ہوں۔ ایسے مریضوں کا اعتقاد یہ ہے کہ سمندر عبور کرنے سے ان کی بیماری دور ہوجائے گی۔
گذشتہ اتوار کو 80سالہ عقیلہ خاتون کے گھر والے بمشکل انہیں سہارا دے کر کسی نہ کسی طرح سے کیماڑی سے منوڑا لیکر گئے۔ کشتی میں سفر کے دوران، اُن کے اہل خانہ نے سمندر میں نذر کے کچھ تعویذ خاتون کے سرپر سے گھما کرسمندر بُرد کئے۔ ساتھ ہی کچھ ناریل، پھیپھڑے اور دیگر سامان بھی سمندر میں پھینکا۔
عقیلہ خاتون کے نواسے نعمان نے ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے کو دوران گفتگو بتایا کہ اُن کی نانی کافی دنوں سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں اور تمام علاج کے باوجود وہ صحت یاب نہیں ہو رہی۔ لہذا، کچھ لوگوں نے اُنہیں سمندر عبور کرنے، نذر اتارنے اور ناریل و پھیپھڑے سمندر میں پھینکنے کا مشورہ دیا ہے۔ نعمان اور دیگر اہل خانہ کو پورا یقین ہے کہ اس طرح ان کی نانی مکمل طور پر صحت یاب ہوجائیں گی۔
منتیں اور مرادیں پوری کرانے کا ذریعہ
پاکستان میں عوام کی ایک بڑی تعداد اس بات پر بھی مکمل یقین رکھتی ہے کہ سمندر منتیں اور مرادیں پوری کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ کسی کے اولاد نہ ہو، کسی کی شادی نہ ہو رہی ہو، کسی کا من پسند رشتہ نہ آرہا ہو، کوئی ملازمت کے لئے پریشان ہو، کسی کو صدقہ دینا ہو ، جائیداد میں حصہ چاہئے ہو ، امیر بننے کی خواہش ہو یا اسی قسم کی کوئی اور منت، مراد، خواہش یا آرزو پوری کرنی ہو تو۔۔۔وہ سمندر کا ہی رخ کرتا ہے۔
کراچی کے ایک کونے میں آباد نیٹی جیٹی کا علاقہ جہاں سمندر کا ایک کنارہ شہر سے جڑتا ہے، وہاں منتوں اور مرادوں کی تکمیل کے لئے ماہانہ لاکھوں افراد آتے ہیں۔ خاص کر خواتین کی تعداد جو تین چوتھائی یا 75فیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ ان خواتین کے اپنی منت اور مرادیں پوری کرنے کے بھی بالکل الگ طریقے ہیں۔ بیشتر خواتین آپ کو تیز دھوپ میں ننگے پاوٴں اور دیر تک ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر منت پوری ہونے کے لئے دعا مانگتی نظر آئیں گی۔
خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی منتوں کی تکمیل کے لئے سورج طلوع ہونے سے رات ڈھلنے تلک یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر سمندر ی مخلوق کے لئے اپنے ساتھ خوراک لاتے ہیں جیسے گندھے ہوئے آٹے کی گولیاں، یا عام آٹا، چاول، چنے، ناریل، گوشت، دالیں اور پھیپھڑے۔ یہ چیزیں جسمانی صدقہ اتار کر مچھلیوں اور دیگر سمندری مخلوق کے لئے سمندر کے حوالے کی جاتی ہیں۔ اس امر کا اعتقاد منتیں اور مرادیں پوری کرانا ہے۔
سینکڑوں افراد منتوں کی تکمیل پر ’فرائض کی ادائیگی‘ کے لئے بھی یہاں کا خوشی خوشی رخ کرتے ہیں۔ ’فرائض کی ادائیگی‘ میں سمندری مخلوق کو غذا کی فراہمی کے علاوہ ’چڑھاوے‘ چڑھانا بھی شامل ہے۔ چڑھاوٴں میں سونا، چاندی اور اس سے بنے زیورات و دیگر قیمتی اشیاٴ سمندر میں پھینک دی جاتی ہیں۔
ضرورت مندوں کا فائدہ
عقیدت مند تو قیمتی اشیاٴ سمندر میں پھینک کر چلے جاتے ہیں لیکن ’ضرورت مند‘ ان سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ سمندر میں چھانگ لگاتے اور سونا چاندی سمیت قیمتی زیورات اور دیگر اشیاء باہر نکال لاتے ہیں جنہیں فروخت کردیا جاتا ہے جبکہ ’چڑھاوے‘ میں استعمال ہونے والی تمام اشیاٴ جیسے آٹا، چاول، چنے، ناریل، گوشت اور دالیں یہیں فروخت ہوتی ہیں۔ کچھ اشیاٴ تو ایسی بھی ہیں جو یہاں بار بار فروخت ہوتی ہیں کیوں کہ انہیں پانی کے مشاق تیراک خراب ہونے سے پہلے ہی باہر نکال لیتے ہیں۔
کڑوے اور کسیلے سچ سے آگاہی
یہ تمام روایات اور ان کی تکمیل بے شک دلچسپ اور بعض لوگوں کے تئیں شائد ’ضروری‘ ہوں۔ لیکن، ان سب کا ایک دردناک پہلو یہ بھی ہے کہ سر کے اترے بالوں، تعویذ، گلے سڑے گوشت کے ٹکڑوں اور دھاتی اشیاٴ کے سبب سمندر میلا نہیں، مسلسل ’غلیظ‘ ہو رہا ہے۔ اس کی آلودگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ایک کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ بے بنیاد عوامی عقائد اور یقین پاکستان کے موجودہ و محدوو سوچ کے حامل معاشرے میں شاید صدیوں تک بدلہ نہیں جاسکتا۔ البتہ، سچ سے آگاہی ضروری ہے جو اس تحریر کا بنیادی مقصد بھی ہے۔