کہا جاتا ہے کہ کراچی میں سال کے 12 مہینوں میں سے تین ماہ کم گرمی، چھ ماہ شدید گرمی اور باقی کے تین ماہ جلا دینے والی گرمی پڑتی ہے۔
سردی اور بارش تو اس شہر سے جیسے روٹھ سی گئی ہے۔ ان دنوں بھی ملک کا سب سے بڑا شہر شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو بحیرۂ عرب میں بننے والا 'وایو' نامی طوفان ہے جس نے اس وقت سمندری ہواؤں کو روکا ہوا ہے۔
جب بھی سمندری ہوائیں بند ہوتی ہیں، کراچی کو ’ہیٹ ویو‘ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بار کسی طوفان کے سبب ہی ایسا ہو۔ محکمۂ موسمیات کے مطابق شہر میں گرمی کی پے در پے آنے والے لہروں کی بہت سی وجوہات ہیں۔
کیا گرمی کی حالیہ لہر کا سبب طوفان ہی ہے؟
ماہرینِ موسمیات اس کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ بحیرۂ عرب میں بننے والا 'وایو' طوفان اگر بھارتی ریاست گجرات سے ٹکراتا تو اس کا اثر کراچی میں تیز ہواؤں کی صورت میں سامنے آتا۔ لیکن اب اس طوفان نے اپنا رخ موڑ لیا ہے اور امکان ہے کہ اگلے کچھ دنوں میں یہ سمندر میں ہی اپنا زور دکھا کر ختم ہو جائے گا۔
لیکن اس طوفان کی موجودگی کے سبب کراچی میں گرمی کی شدت بڑھ گئی ہے کیوں کہ سمندر میں اس وقت ہوا کا دباؤ کم ہے جس سے جنوب مغربی سمت سے شہر کی جانب چلنے والی ہوائیں رکی ہوئی ہیں۔
ہیٹ ویو کیسے آتی ہے؟
محکمۂ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق کراچی کے ساحل پر واقع ہونے کی وجہ سے یہاں ہمیشہ مئی سے ستمبر تک جنوب مغربی سمت سے ہوائیں چلتی ہیں جس کے سبب موسم معتدل رہتا ہے۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے میدانی علاقوں میں ہوا کے کم دباؤ کا کوئی سسٹم بن جائے تو سمندری ہوائیں بند ہو جاتی ہیں اور ان ہواؤں کا رخ یا تو شمال سے ہو جاتا ہے یا پھر شمال مشرقی یا مغربی سمت سے جڑ جاتا ہے۔
کراچی کے شمال مشرق میں تھر اور بھارت کا صحرا راجھستان ہے اور ان دونوں کا شمار خطے کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ شہر کے شمال مغرب میں بلوچستان اور ایران کے صحرائی اور پہاڑی علاقے ہیں اور وہاں سے چلنے والی ہوائیں بھی گرمی ساتھ لاتی ہیں۔
یوں سمندری ہواؤں کی بندش اور سمندر کے علاوہ کسی دوسری جانب سے ہواؤں کا آنا کراچی میں ’ہیٹ ویو‘ کا سبب بنتا ہے۔
کراچی نے پہلی ہیٹ ویو کا سامنا کب کیا؟
کراچی کے باسیوں نے ’ہیٹ ویو‘ کا نام پہلی بار 2015ء میں سنا تھا۔ اس سال پہلی بار شہریوں کو شدید گرمی کا جھٹکا لگا اور درجۂ حرارت اچانک اس تیزی سے بڑھا تھا کہ حکومت اور مقامی انتظامیہ سمیت کوئی بھی سنبھل نہیں پایا تھا۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں دیکھتے ہی دیکھتے ’ہیٹ اسٹروک‘ کا شکار ہونے والے افراد کا رش بڑھ گیا اور چند روز میں درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
اس ہیٹ ویو کی وجہ سے جہاں سرکاری اداروں کو گرمی سے بچاؤ کے لیے اپنی تیاریوں اور صلاحیت میں کمی کا ادراک ہوا، وہیں مستقبل میں ان اداروں کو تیار رہنے کا بھی اشارہ ملا۔
محکمۂ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر عبدالرشید کہتے ہیں کہ 2015ء کے بعد سے اداروں کے درمیان تعاون بڑھا ہے اور شہری و صوبائی حکومتوں کے درمیان اس مسئلے پر باقاعدہ بریفنگز اور اجلاس ہونے لگے ہیں۔
کراچی میں گرمی بڑھنے کی اور کیا وجوہات ہیں؟
کراچی کا موسم دنوں میں نہیں بدلا۔ جس رفتار سے یہ شہر تبدیل ہوا ہے، اسی رفتار سے شہر کا موسم بھی بدلا ہے۔
جامعۂ کراچی کے شعبۂ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر آتا ہے اور اس موسم کی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر کراچی اور ملک کے شمالی علاقوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ان کے بقول پچھلے 60 برسوں میں کراچی کا درجۂ حرارت اوسطاً سوا دو ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہے جس کی سب سے اہم وجہ شہر کی بڑھتی آبادی اور تعمیرات ہیں۔
ڈاکٹر وقار کہتے ہیں کہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلی کی ایک اور اہم وجہ ایندھن کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ شہر میں کاربن کا اخراج بڑھ رہا ہے اور درختوں اور ہریالی کی کمی ہے۔ شہر میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ اور مشینیوں کا بڑھتا ہوا استعمال بھی شہر کو گرم کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سمندری ہوائیں کراچی کے موسم کو معتدل رکھتی ہیں۔ لیکن اگر یہ ہوائیں بند ہوجائیں اور کسی اور جانب سے گرم ہوائیں نہ بھی چلیں تو شہر میں موجود کنکریٹ کی اونچی عمارتیں، بے شمار گاڑیاں اور توانائی کا بے تحاشا استعمال اس کے درجۂ حرارت کو مزید بڑھانے کے لیے کافی ہیں
برطانوی جریدے 'دی اکانومسٹ' نے 2018ء میں دنیا بھر سے 140 رہنے کے قابل شہروں کی فہرست جاری کی تھی جو ماحولیاتی اعتبار سے مرتب کی گئی تھی۔ اس فہرست میں کراچی 137 ویں نمبر پر تھا جس سے شہر کی غیر شفاف فضا اور ماحول کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ہیٹ ویو کی علامات
جناح اسپتال کراچی سے منسلک ڈاکٹر اور اسسٹنٹ پروفیسر صائمہ مشتاق کہتی ہیں کہ ان دنوں کراچی کے اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک سے زیادہ ڈی ہائیڈریشن کے مریض آ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں 2015ء کی ہیٹ ویو کے بعد سے شہریوں میں اتنا شعور آگیا ہے کہ انھیں اس موسم کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق اگر کوئی شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کی پہلی علامت یہ ہوگی کہ وہ اپنے حواس بحال رکھنے میں مشکل محسوس کرے گا اور اس کا جسم شدید گرم ہوجائے گا۔
ایسی صورتِ حال میں پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے کہ اس مریض کو عام درجۂ حرارت کے پانی سے نہلا دیا جائے۔ اگر وہ کچھ پینے کے قابل ہے تو فوری پانی پلائیں۔ اگر کسی دھوپ کی جگہ پر ہے تو سب سے پہلے سایہ دار جگہ منتقل کریں۔
اگر مریض کا بلڈ پریشر کم ہو رہا ہے اور جسم سرد پڑ رہا ہے تو ایسے میں اس مریض کی ٹانگیں جسم سے تھوڑی اونچی کردیں تاکہ اس کے دل اور دماغ کو خون کی فراہمی جاری رہ سکے اور جتنی جلدی ممکن ہو اسے اسپتال منتقل کردیا جائے۔
گرمی سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر
- پانی اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال زیادہ کیا جائے۔ عام دنوں میں پانی کا ان ٹیک ڈھائی سے تین لیٹر جب کہ ہیٹ ویو کی صورت میں پانچ لیٹر تک بڑھایا جائے۔
- گرمی میں ہلکے رنگ کے ڈھیلے ڈھالے ملبوسات کا استعمال کریں۔ جب بھی باہر جائیں تو چھتری ساتھ لیں یا پھر سر کو ڈھانپ کر رکھیں۔ ہوسکے تو گیلا تولیہ یا کپڑا سر پر رکھیں۔
- گرمی میں بہنے والے پسینے سے جسم کی نمکیات کم ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں نمکین لسی، لیموں پانی اور او آر ایس کا استعمال نمکیات کی کمی کو پورا کرنے میں مدد دیں گے۔
- وہ مریض جو ہائپر ٹینشن کا شکار ہیں یا نفسیاتی امراض کے سبب ادویات کا استعمال کرتے ہیں انھیں معالج کے مشورے سے اس گرمی میں دواؤں کا استعمال کرنا چاہیے کیونکہ ایسی ادویات کا استعمال کرنے والے مریضوں کو ہیٹ اسٹروک کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔
- مرغن اور تیز مصالحے والے کھانوں سے اجتناب برتیں۔ ہلکی غذا جو جلد ہضم ہو، اسکا استعمال کریں۔
- غیر ضروری طور پر گھر سے نکلنے سے گریز کریں۔ دن بارہ بجے سے چار بجے تک عین سورج کے نیچے رہنے سے احتیاط برتیں۔