کراچی میں اتوار کا دن غیر اعلانیہ ’پکنک ڈے‘ کے طور پر منایا گیا۔ ملک کا میڈیا پچھلے کئی دن سے چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ بحیرہ عرب میں سمندری طوفان کا خدشہ ہے، سمندر کا رخ نہ کریں، کھلے سمندر میں نہانہ اور گہرے سمندر میں شکار کھیلنے پر پابندی تھی۔ دفعہ 144کا بھی نفاذ عمل میں لایا گیا۔ لیکن، کراچی کے نڈر اور طوفان دیکھنے کے شوقین افراد نے کسی کی ایک نہ سنی اور جتنا زیادہ منع کیا، لوگوں نے اسی قدر سمندر کا رخ کیا۔
کیماڑی، منوڑا، سینڈز پٹ، ہاکس بے، پیراڈائرز پوائنٹ، فرنچ بیچ، گڈانی، سی ویو، دو دریا ۔۔۔غرض کہ کون سا ساحل تھا جہاں تل دھرنے کو بھی جگہ باقی رہی ہو۔
لوگوں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ صبح منہ اندھیرے سے لیکر 3بجے سہ پہر تک سمندر کی طاقتور لہریں پورے جوبن پر تھیں اور رہ رہ کر کئی کئی میٹر اوپر تک پہنچ جاتی تھی۔ ساحل سے متصل سڑک تک پانی آچکا تھا اور بے شمار ہٹس کے آدھے آدھے حصے تک ڈوبے ہوئے تھے۔
ہر ساحل پر لائف گارڈز اور پولیس تعینات تھی جو دن بھر لوگوں کو پانی میں آگے جانے سے بار بار روکتی رہی۔ بے شمار لوگ کنارے پر آنے والی لہروں سے لڑ کھڑا لڑکھڑا کر بار بار گرتے رہے، کچھ تو ایسا لگا کہ اب ڈوبے جب ڈوبے۔سمندر کی منہ زور لہریں انہیں کھینچے لئے جاتی تھیں مگر کسی کو بھی پروا نہ تھی سب گویا بے خوفی کا شکار تھے۔
سمندر پر جانے والی ایک بڑی فیملی کے رکن شاہد نے وائس آف امریکہ کو فرط جذبات سے بتایا کہ ’یہی تو دن ہے پکنک کا۔ عام دنوں میں سمندر کے کنارے اونچی لہریں تھوڑی اٹھتی ہیں۔۔نہ ہی اتنی رونق ہوتی ہے۔ میں تو یہاں آکر سوچ رہا ہوں جنہوں نے آج پکنک نہیں منائی وہ شاید اگلے کئی سالوں تک بھی ایسی پکنک کا مزا نہیں لے سکیں گے۔‘
سمندر میں تیزی کے سبب ہاکس بے جانے والے ایک اور فیملی کے ممبران نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن، تیز لہروں کی وجہ سے پانی میں بڑے بڑے نوکیلے پتھر آک آکر پیڑوں کو زخمی کررہے ہیں، ہمارے فیملی کا کوئی بھی رکن ایسا نہیں جو زخمی نہ ہوا ہو۔‘
ہاکس بے پر ہی موجود ایک نو سالہ بچے شہود علی نے بتایا کہ اس کے تو یہاں آکر مزے آگئے ہیں۔ اس نے ڈھیر ساری سیپیاں جمع کیں، جبکہ اس کی بہن آسیہ نے سمندری جھاگ اکھٹا کئے۔
شہود اور آسیہ کے چچا ریحان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سمندری جھاگ طوطے بہت شوق سے کھاتے ہیں، انہوں نے کئی جوڑے طوطے اور چڑیاں اپنے گھر پر پال رکھی ہیں۔ آج سے قبل وہ بازار سے مہنگے داموں خرید خرید کر سمندری جھاگ لاتے رہے ہیں۔
سمندر کے تیور غیر مناسب ہونے کے باوجود شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے اتوار کے روز ساحلوں کا رخ کیا جس کی ایک وجہ پچھلے ایک ماہ سے پڑنے والی سخت گرمی اور چلچلاتی ہوئی دھوپ بھی تھی۔ شہر گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ کاعذاب بھی بھگت رہا ہے ۔ اتوار کوبھی درجہ حرارت 40سینٹی گریٹ کے قریب تھا البتہ پیر کو موسم نسبتاً کم گرم تھا اور دن کے بیشتر حصوں میں بادل چھائے رہے۔
محکمہ موسمیات نے گزشتہ بدھ کو رات گئے بحیرہ عرب میں طوفان کی پیش گوئی کی تھی جبکہ جمعرات کی صبح کراچی، ٹھٹھہ، بدین اور اندرون سندھ کئی شہر زیرآب آگئے۔ طغیانی کے باعث ریہڑھی گوٹھ، سینڈز پٹ اور پیراڈائز پوائنٹ پر قائم کئی ہٹس بھی پانی میں بہہ گئیں، جبکہ منوڑہ تک جانے کا واحد زمینی راستہ بھی منقطع ہوگیا۔ متعدد ساحلی علاقوں میں بنے ہوئے گھر کئی کئی فٹ تک زیر آب آگئے۔
محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ سمندری طوفان جس کا رخ عمان کی طرف تھا اتوار تک وہاں پہنچتے پہنچتے اس کا زور ٹوٹ جائے گا، جبکہ پاکستان کے کسی بھی علاقے کو اس طوفان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ لیکن، کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمنٹنے کے لئے حکومت نے احتیاطی تدابیر کر رکھی تھیں۔
کیماڑی، منوڑا، سینڈز پٹ، ہاکس بے، پیراڈائرز پوائنٹ، فرنچ بیچ، گڈانی، سی ویو، دو دریا ۔۔۔غرض کہ کون سا ساحل تھا جہاں تل دھرنے کو بھی جگہ باقی رہی ہو۔
لوگوں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ صبح منہ اندھیرے سے لیکر 3بجے سہ پہر تک سمندر کی طاقتور لہریں پورے جوبن پر تھیں اور رہ رہ کر کئی کئی میٹر اوپر تک پہنچ جاتی تھی۔ ساحل سے متصل سڑک تک پانی آچکا تھا اور بے شمار ہٹس کے آدھے آدھے حصے تک ڈوبے ہوئے تھے۔
ہر ساحل پر لائف گارڈز اور پولیس تعینات تھی جو دن بھر لوگوں کو پانی میں آگے جانے سے بار بار روکتی رہی۔ بے شمار لوگ کنارے پر آنے والی لہروں سے لڑ کھڑا لڑکھڑا کر بار بار گرتے رہے، کچھ تو ایسا لگا کہ اب ڈوبے جب ڈوبے۔سمندر کی منہ زور لہریں انہیں کھینچے لئے جاتی تھیں مگر کسی کو بھی پروا نہ تھی سب گویا بے خوفی کا شکار تھے۔
سمندر پر جانے والی ایک بڑی فیملی کے رکن شاہد نے وائس آف امریکہ کو فرط جذبات سے بتایا کہ ’یہی تو دن ہے پکنک کا۔ عام دنوں میں سمندر کے کنارے اونچی لہریں تھوڑی اٹھتی ہیں۔۔نہ ہی اتنی رونق ہوتی ہے۔ میں تو یہاں آکر سوچ رہا ہوں جنہوں نے آج پکنک نہیں منائی وہ شاید اگلے کئی سالوں تک بھی ایسی پکنک کا مزا نہیں لے سکیں گے۔‘
سمندر میں تیزی کے سبب ہاکس بے جانے والے ایک اور فیملی کے ممبران نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کچھ اچھا لگ رہا ہے۔ لیکن، تیز لہروں کی وجہ سے پانی میں بڑے بڑے نوکیلے پتھر آک آکر پیڑوں کو زخمی کررہے ہیں، ہمارے فیملی کا کوئی بھی رکن ایسا نہیں جو زخمی نہ ہوا ہو۔‘
ہاکس بے پر ہی موجود ایک نو سالہ بچے شہود علی نے بتایا کہ اس کے تو یہاں آکر مزے آگئے ہیں۔ اس نے ڈھیر ساری سیپیاں جمع کیں، جبکہ اس کی بہن آسیہ نے سمندری جھاگ اکھٹا کئے۔
شہود اور آسیہ کے چچا ریحان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سمندری جھاگ طوطے بہت شوق سے کھاتے ہیں، انہوں نے کئی جوڑے طوطے اور چڑیاں اپنے گھر پر پال رکھی ہیں۔ آج سے قبل وہ بازار سے مہنگے داموں خرید خرید کر سمندری جھاگ لاتے رہے ہیں۔
سمندر کے تیور غیر مناسب ہونے کے باوجود شہریوں کی بہت بڑی تعداد نے اتوار کے روز ساحلوں کا رخ کیا جس کی ایک وجہ پچھلے ایک ماہ سے پڑنے والی سخت گرمی اور چلچلاتی ہوئی دھوپ بھی تھی۔ شہر گرمی کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ کاعذاب بھی بھگت رہا ہے ۔ اتوار کوبھی درجہ حرارت 40سینٹی گریٹ کے قریب تھا البتہ پیر کو موسم نسبتاً کم گرم تھا اور دن کے بیشتر حصوں میں بادل چھائے رہے۔
محکمہ موسمیات نے گزشتہ بدھ کو رات گئے بحیرہ عرب میں طوفان کی پیش گوئی کی تھی جبکہ جمعرات کی صبح کراچی، ٹھٹھہ، بدین اور اندرون سندھ کئی شہر زیرآب آگئے۔ طغیانی کے باعث ریہڑھی گوٹھ، سینڈز پٹ اور پیراڈائز پوائنٹ پر قائم کئی ہٹس بھی پانی میں بہہ گئیں، جبکہ منوڑہ تک جانے کا واحد زمینی راستہ بھی منقطع ہوگیا۔ متعدد ساحلی علاقوں میں بنے ہوئے گھر کئی کئی فٹ تک زیر آب آگئے۔
محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی تھی کہ سمندری طوفان جس کا رخ عمان کی طرف تھا اتوار تک وہاں پہنچتے پہنچتے اس کا زور ٹوٹ جائے گا، جبکہ پاکستان کے کسی بھی علاقے کو اس طوفان سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔ لیکن، کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمنٹنے کے لئے حکومت نے احتیاطی تدابیر کر رکھی تھیں۔