|
نئی دہلی -- بنگلہ دیش کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ رواں برس جولائی میں شیخ حسینہ کے خلاف ہونے والی بغاوت پر جلد ایک سرکاری اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ پانچ اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے، ان کے بھارت آنے اور اقلیتوں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سرکاری اعلامیے کا فیصلہ بھارت مخالف گروپوں کے دباؤ میں کیا گیا ہے۔ سمجھا جا رہا ہے کہ اعلان بھارت اور 1972 کے آئین کے خلاف ہو گا۔
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشیر اعلیٰ محمد یونس کے پریس سیکریٹری شفیق العالم نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا اعلان کیا اور کہا کہ سب (گروپوں) کے اتفاقِ رائے سے اعلامیہ قوم کے سامنے رکھا جائے گا۔
اُنہوں نے محمد یونس کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اعلامیہ طلبہ گروپوں، سیاسی جماعتوں اور شیخ حسینہ کی عوامی لیگ حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک کی قیادت کرنے والے گروپ ’اینٹی ڈسکرمنیشن موومنٹ‘ کے خیالات پر مبنی ہو گا۔
یاد رہے کہ’ اینٹی ڈسکرمنیشن موومنٹ‘، ’نیشنل سٹیزنز کمیٹی‘ اور ’جولائی مارٹائرز میموریل فاونڈیشن‘ نے حیرت انگیز طور پر دو روز قبل اعلان کیا تھا کہ وہ منگل کی سہ پہر ڈھاکہ سینٹرل شہید مینار پر 'بغاوت کا اعلامیہ' جاری کریں گے اور ’1972 کے آئین کو اس میں دفن کریں گے۔‘
عبوری حکومت نے پہلے تو خود کو اس اعلان سے الگ کر لیا اور اس کے بعد خود سرکاری بیان جاری کرنے کا اعلان کر دیا۔ مذکورہ گروپوں نے اس اعلان کے بعد اپنا اعلامیہ جاری کرنے کا پلان منسوخ کر دیا۔ البتہ اسی مقام اور اسی وقت پر اتحاد مارچ نکالنے کا اعلان کیا۔
'بھارت کو اب اس بغاوت کو تسلیم کر لینا چاہیے'
اینٹی ڈسکرمنیشن موومنٹ کے کلیدی رہنما اور عبوری حکومت کے عملاً وزیرِ خارجہ محفوظ عالم نے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ بھارت کو حکومت مخالف بغاوت کو واضح طور پر تسلیم کر لینا اور باہمی تعلقات کا ازسرنو آغاز کرنا چاہیے۔
ان کے مطابق بھارت نے اس بغاوت کو انتہا پسند، ہندو مخالف اور اسلام پسندوں کی جانب سے حکومت پر قبضہ کرنے کے طور پر پیش کیا ہے۔ انھوں نے بھارت سے کہا کہ وہ 1975 کے بعد کی اپنی سوچ بدلے اور نئے بنگلہ دیش کی سچائیوں کا ادراک کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ اسے (بغاوت کو) تسلیم کرنا ہی نئے سرے سے باہمی تعلقات کی استواری کا پہلا قدم ہو گا۔ یہ نئے بنگلہ دیش کی بنیاد ہے اور اسے نظرانداز کرنا دونوں ملکوں کے مفاد کے منافی ہو گا۔
بھارت کی جانب سے اس بیان اور وہاں کی تازہ صورتِ حال پر تاحال کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
'محمد یونس پر انتہا پسند عناصر کا دباؤ ہے'
سینئر تجزیہ کار کلول بھٹاچارجی کہتے ہیں کہ محمد یونس پر انتہا پسند عناصر اور طلبہ گرپوں کا شدید دباؤ ہے اور آنے والے دنوں میں بھارت بنگلہ دیش کے باہمی تعلقات کی نوعیت انتہائی گمبھیر ہونے والی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ تینوں گروپوں کی جانب سے شہید مینار پر جو اعلامیہ جاری کیا جاتا وہ بھارت مخالف ہوتا۔ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف جذبات بہت شدید ہیں اور وہ ان عوامی جذبات کو آئین کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
یاد رہے کہ تینوں گروپوں کے فرنٹ کے کنونیر حسن عبد اللہ نے 29 دسمبر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 1972 کے مجیبسٹ (مجیب نواز) آئین کو اسی جگہ (اعلامیہ میں) دفنا دیا جائے گا جہاں جولائی کی بغاوت کے دوران ون پوائنٹ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا۔
ان کے مطابق بھارتی حملے کا آغاز 1972 کے آئین کے نظریے کی بنیاد پر ہوا تھا اور اس اعلان میں یہ واضح کیا جائے گا کہ اس آئین نے عوام کی امنگوں کو کیسے تباہ کیا اور ہم اسے کیسے بدلنا چاہتے ہیں۔
'جہاں احسان فراموشی ہو وہاں تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے'
سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی حکومت منتخب حکومت نہیں ہے، وہ غیر قانونی ہے اور ایسے عناصر سے بھری ہوئی ہے جو کل تک غنڈہ اسٹوڈنٹس کے نام سے جانے جاتے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت طلبہ چلا رہے ہیں اور ذمہ داری کے ساتھ چلا رہے ہیں تو بنگلہ دیش کے لیے اچھا ہو گا اور اگر ایک بھیڑ کی ذہنیت کی طرح چلائیں گے تو وہ بنگلہ دیش کے لیے تباہ کن ہو گا۔
بنگلہ دیش میں بھارت کے تعلق سے اس وقت جو عوامی جذبات ہیں اسے راجیو ڈوگرہ احسان فراموشی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق خود غرضی اور احسان فراموشی جہاں ہو وہاں تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔
ان کے مطابق بنگلہ دیش کے وہ لوگ جو مہذب ہیں اور صحیح سوجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ حکمراں طبقے کو یہ بات یاد دلائیں کہ 1971 سے قبل بنگلہ دیش پاکستان کی ایک کالونی تھا۔ اگر وہ اس بات کا احساس نہیں کریں گے تو بھارت کے ساتھ اس کے تعلقات اچھے نہیں ہو سکتے۔
کلول بھٹاچارجی کہتے ہیں کہ حکومت نے خود اعلامیہ جاری کرنے کا اعلان یہ سوچ کر کیا ہو گا کہ اگر شہید مینار سے کوئی اعلامیہ جاری کیا گیا تو اس کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی۔ ان کے مطابق اس سے قبل جو ون پوائنٹ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا وہ واضح طور پر بھارت مخالف تھا۔ اب وہ بھارت مخالف آئین بنانا چاہتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ محمد یونس تو بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن ان پر مذہبی طبقے اور طلبہ گروپوں کا بہت دباؤ ہے۔
اُن کے بقول یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے نومبر میں اپنی ایڈوائزری کمیٹی میں محفوظ عالم نامی جس طلبہ لیڈر کو شامل کیا ہے وہ سخت انتہاپسند ہیں۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا ردِعمل
ادھر طلبہ گروپوں کے اعلان پر خالدہ ضیا کی سیاسی جماعت ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ (بی این پی) کی مستقل کمیٹی کے رکن مرزا عباس نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش کا آئین 30 لاکھ لوگوں کے خون سے لکھا گیا تھا۔ اگر اس میں کچھ غلط ہے تو اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
ان کے بقول ان گروپوں کے طلبہ بہت سینئر ہیں اسی لیے ہمیں ان کی ایسی سرگرمیوں سے مایوسی ہوتی ہے۔ وہ 'فاشسٹوں' جیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔ کیوں کہ 'فاشسٹ' ہی کہتے ہیں کہ دفنا دیں گے، مار دیں گے، کاٹ دیں گے۔
کلول بھٹا چارجی کے خیال میں بھارت کی وزارتِ داخلہ کے اندر کے لوگ بنگلہ دیش کی صورتِ حال کے پیشِ نظر باہمی تعلقات کے سلسلے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اپنے خارجہ سیکریٹری کو ڈھاکہ بھیجنے میں چار ماہ لگ گئے۔
جہاں تک شیخ حسینہ کی حوالگی سے متعلق بنگلہ دیش حکومت کی جانب سے بھارت کو بھیجے گئے ’نوٹ وربل‘ کا معاملہ ہے تو نئی دہلی کے تمام تجزیہ کار اور سابق سفارت کار اس خیال کے حامی ہیں کہ بھارت شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش بھیجنے کا پابند نہیں ہے۔ ان کے بقول نوٹ وربل کی کوئی سفارتی اہمیت نہیں ہوتی۔
ان کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان حوالگی معاہدہ ہے لیکن سیاسی شخصیات اس کے دائرے میں نہیں آتیں۔ 2013 میں ہونے والے اس معاہدے کی دفعہ چھ کے مطابق اگر الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں تو نئی دہلی حوالگی سے انکار کر سکتا ہے۔ یہ معاہدہ قتل، دہشت گردی اور اس قسم کے دیگر جرائم پر لاگو ہوتا ہے۔
فورم