رسائی کے لنکس

کراچی کی بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی: کب کیا ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں 11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں واقع فیکٹری 'علی انٹر پرائز گارمنٹس' میں آتش زنی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس واقعے میں 264 افراد زندہ جل کر ہلاک ہوئے تھے جب کہ 50 زخمیوں کا اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

فیکٹری میں لگنے والی آگ کے بھیانک واقعے پر تحقیقات کے لیے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تقریباََ ڈھائی سال بعد 2015 میں قائم کی گئی تھی۔

اس تحقیقاتی ٹیم نے 43 سیشنز کیے، 6 بار جائے وقوع کا دورہ کیا اور 39 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کر کے حتمی رپورٹ تیار کی۔

اس رپورٹ میں کیمیکل ایگزمینر کی رپورٹس، کرائم سین انسپیکشن رپورٹ، الیکٹرک انسپکٹر، چیف فائر آفیسر، ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ، ویڈیو فرانزک رپورٹ اور دیگر رپورٹس اور تجزیات کا بھی احاطہ کیا گیا تھا۔

انسدادِ دہشت گردی عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی کے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سیکٹر انچارج رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو 264 بار سزائے موت​ سنائی ہے۔ چار ملزمان کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی سمیت چار ملزمان کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کیا گیا ہے۔

'آگ لگانے کی وجہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینا تھا'

اس واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں آگ لگنے کی اصل وجہ حادثہ نہیں بلکہ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینا تھی جس پر فیکٹری کو جان بوجھ کر آگ لگائی گئی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ غیر قانونی اسلحہ کیس میں گرفتار ایک ملزم رضوان قریشی نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے رہنما حماد صدیقی نے فیکٹری کے مالکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیکٹری مالکان کے انکار پر ایم کیو ایم کے سیکٹر انچارج رحمٰن عرف بھولا نے 11 ستمبر 2012 کو آگ لگانے والا کیمیکل پھینکا جس سے وہاں آگ لگی۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ فیکٹری میں ہونے والا سانحہ آتش زنی کا واقعہ تھا۔ جب کہ شواہد بتاتے ہیں کہ الیکٹرک شارٹ سرکٹ کے کوئی آثار نہیں ملے۔

'آگ لگانے کا عمل حادثہ نہیں بلکہ دہشت گردی کا منصوبہ تھا'

کمپنی میں کام کرنے والے ایک شخص نے مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا کہ اس نے زبیر عرف چریا نامی شخص کو اپنے پانچ ساتھیوں سمیت کوئی ایسی چیز پھینکتے ہوئے دیکھا جس سے اگلے 5 سے 10 سیکنڈ میں گودام میں آگ بھڑک اٹھی۔ جب کہ زبیر نے کینٹین کی جانب جانے والے دروازے لاک کر دیے اور وہ آگ بجھانے والوں کو بھی اوپر جہاں لوگ کام کر رہے تھے، جانے سے روک رہا تھا۔

جے آئی ٹی نے رپورٹ میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ تکنیکی رپورٹس، شہادتوں اور گواہوں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آگ لگانے کا عمل حادثہ نہیں بلکہ سوچا سمجھا دہشت گردی کا منصوبہ تھا۔ جو غالباََ کیمیکل کے استعمال سے ممکن ہوا۔

'ایم کیو ایم کا فیکٹری میں اثر و رسوخ کافی زیادہ تھا'

فیکٹری کے پروڈکشن مینیجر کے بیان کے مطابق ایم کیو ایم کے بلدیہ سیکٹر کا فیکٹری میں اثر و رسوخ کافی زیادہ تھا۔ سیکٹر آفس فیکٹری انتظامیہ سے زکوٰۃ، فطرانہ، پارٹی کے لیے چندے کے علاوہ کنٹریکٹ وغیرہ بھی حاصل کرتا تھا۔ فیکٹری میں ملازمتیں رکھنے اور نکالنے سے متعلق بھی ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا۔

اس نے اپنے بیان میں جے آئی ٹی کو مزید بتایا کہ سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا نے ایم کیو ایم تنظیمی کمیٹی کی جانب سے فیکٹری مالکان سے 25 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا۔

اسی شخص کے بیان کے مطابق فیکٹری مالکان اس پر کافی پریشان تھے۔ وہ ایک کروڑ روپے میں معاملات حل کرنے پر راضی تھے، لیکن سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اپنا مطالبہ 20 کروڑ روپے سے کسی صورت کم کرنے پر تیار نہیں تھا۔ جب کہ ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی تھی۔

اس نے بتایا کہ وسیم دہلوی نامی شخص جس کے ایم کیو ایم سے گہرے روابط تھے، وہ بھی فیکٹری سے بھتہ اور ملبوسات حاصل کرتا تھا۔ جب کہ رمضان میں زکوٰۃ اور فطرانہ بھی مالکان سے لے کر پروڈکشن مینیجر خود وسیم کے حوالے کرتا رہا۔

'فائر بریگیڈ آگ لگنے کے ایک گھنٹے 26 منٹ بعد پہنچی'

پروڈکشن مینیجر نے اپنے بیان میں بتایا کہ آگ لگنے کے بعد فائر بریگیڈ کو اطلاع دیے جانے کے باوجود کوئی گاڑی آگ بجھانے نہیں آئی۔ بلکہ اکاؤنٹنٹ عبدالمجید کو فائر بریگیڈ اسٹیشن بھیجا گیا تاکہ وہ فائر ٹینڈرز لا سکیں۔

ان کے بقول اس دوران آگ پر قابو پانے کے لیے خود ہی کوشش جاری رکھی گئی۔ جب کہ فائر بریگیڈ آگ لگنے کے ایک گھنٹہ 26 منٹ بعد جائے وقوع پر پہنچی۔

'مطالبات ناقابلِ قبول تھے'

جے آئی ٹی نے فیکٹری مالکان کے بیانات دبئی میں ریکارڈ کئے۔ جنہوں نے اس سے قبل لیے گئے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ رحمٰن بھولا نے 25 کروڑ روپے کے ساتھ فیکٹری میں حصہ داری کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

مالکان کے مطابق یہ دنوں مطالبات ان کے لیے لیے ناقابلِ قبول تھے۔

'واقعے کے بعد بھی فیکٹری مالکان سے 5 کروڑ 98 لاکھ روپے بھتہ لیا گیا'

جے آئی ٹی نے پولیس کے مقدمے کے اندراج میں مجرمانہ غفلت کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کے باوجود کسی معتبر ادارے سے تحقیقات میں کوئی تعاون حاصل ہی نہ کیا گیا۔ جب کہ جو رپورٹس موجود تھیں انہیں بھی پیشہ وارانہ طور پر ٹھیک طریقے سے جانچا اور تشریح نہیں کی گئی۔

دوسری جانب فیکٹری مالکان ارشد بھائیلا اور شاہد بھائیلا نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ ضمانت پر رہا ہونے کے بعد ان پر ایم کیو ایم کی جانب سے صلح کے لیے بے حد دباؤ تھا۔

ان کے بقول اس وقت کے ڈپٹی کنوینر ایم کیو ایم انیس قائم خانی کے قریبی دوست اور حیدرآباد کی ایک بڑی کاروباری شخصیت علی حسن سے مذاکرات کے بعد طے یہ پایا کہ اگر فیکٹری مالکان ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو ڈھائی ڈھائی لاکھ اور زخمیوں کو ایک ایک لاکھ معاوضہ دیں۔ تو متحدہ قومی موومنٹ سے صلح ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ رقم ایم کیو ایم پارٹی پلیٹ فارم سے متاثرین کو ادا کرنا چاہتی تھی اور اس مقصد کے لیے فیکٹری مالکان نے 5 کروڑ 98 لاکھ روپے کی رقم ایک اکاؤنٹ میں جمع بھی کرا دی۔

محمد علی حسن نے فیکٹری مالکان کو بتایا کہ یہ رقم انیس قائم خانی کو بھیج دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے انیس قائم خانی کے لے پالک بیٹے عبدالستار خان کے ایک بینک اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے۔ جس سے ایک پلاٹ کی خریداری کے لیے رقم ادا کی گئی۔

جے آئی ٹی کے مطابق بھائیلا برادران سے ہتھیائی گئی یہ رقم پراپرٹی کی شکل میں ڈاکٹر عبدالستار اور ان کے دیگر کاروباری شراکت داروں کے پاس موجود ہے۔

جے آئی ٹی نے خلاصے میں کہا ہے کہ حقیقت میں یہ ایک دہشت گردی کی واردات تھی جو 20 کروڑ روپے بھتہ اور فیکٹری میں حصہ داری نہ دینے کے لیے رحمٰن بھولا اور حماد صدیقی نے کی۔

رپورٹ میں واقعے کی تحقیقات میں سمجھوتے اور بوسیدہ نظام پر مبنی پولیسنگ کی نشان دہی کی گئی جس میں مظلوم اور متاثرین کی بجائے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ تاکہ اس سے فوائد اور مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔

خلاصے میں مزید کہا گیا کہ پولیس کی کارکردگی پر پیشہ وارانہ ہونے کی بجائے خوف اور احسان سے مغلوب تھی۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG