رسائی کے لنکس

سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کیا یہ مقدمہ کسی نتیجے پر پہنچ پائے گا؟


کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو آگ لگنے سے 259 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو)
کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو آگ لگنے سے 259 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

سندھ ہائی کورٹ نے سانحہ بلدیہ کیس کے مرکزی ملزم رحمٰن عرف بھولا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیکٹری مالکان کا بیان ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ریکارڈ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

سانحہ بلدیہ کیس گزشتہ دو برس سے سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کی اجازت ملنے سے اب یہ مقدمہ جلد مکمل ہونے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔

عدالتی کارروائی کی تفصیلات

سانحہ بلدیہ کیس کی سماعت سندھ ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ کر رہا ہے۔

مقدمے کے مرکزی ملزم رحمٰن عرف بھولا نے عدالت میں یہ درخواست دائر کی ہوئی تھی کہ سرکاری وکلا کی جانب سے علی انٹر پرائز کے مالکان (ارشد بھائلہ اور شاہد بھائلہ) کو ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے سے روکا جائے۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ کراچی کے حالات اب بہتر ہو چکے ہیں اس لیے فیکٹری مالکان عدالت آکر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔

عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے مرکزی ملزم کے وکیل نے کہا کہ پہلے دو سال تک فیکٹری مالکان کو ملزم قرار دیا جاتا رہا لیکن اب گواہ بنا دیا گیا ہے۔

وکیل کے بقول فیکٹری مالکان کا ابتدائی بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا گیا لیکن سرکاری وکلا نے انہیں گواہوں میں شامل کر لیا ہے۔

مقدمے میں سرکار کی پیروی کرنے والے خصوصی وکیل ساجد محبوب شیخ نے عدالت کو بتایا کہ شاہد بھائلہ اور ارشد بھائلہ کی جان کو خطرات لاحق ہیں جس کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے جلد پورے کرنے کے لیے فیکٹری مالکان کا بیان ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ریکارڈ کرنا ضروری ہے۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل بھی فیکٹری مالکان کا ابتدائی بیان پاکستانی قونصلیٹ میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

عدالت نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ یہ تو انتہائی خطرناک کیس ہے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے بیان کیوں نہیں لیا جا سکتا؟

عدالت نے درخواست گزار کا موقف غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ملزم کی درخواست رد کر دی۔

’مقدمے کی سماعت میں حائل رکاوٹ دور ہو گئی‘

’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ ساجد محبوب نے اسے استغاثہ کی بڑی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ اس سے کیس کی شنوائی میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔

ساجد محبوب نے بتایا کہ اس مقدمے میں اب تک 396 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جو ملکی تاریخ میں کسی بھی کیس میں گواہوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ جب کہ کچھ مزید گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونا ابھی باقی ہیں۔

ساجد محبوب ایڈووکیٹ نے بتایا ہے کہ فیکٹری مالکان کا بیان انسدادِ دہشت گردی کی عدالت آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرے گی۔

سات سال سے انصاف کے منتظر لواحقین

سانحہ بلدیہ میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کی ایسوسی ایشن کی ایک رہنما سعیدہ خاتون کا کہنا ہے کہ انصاف کی راہ میں حائل اگر کوئی رکاوٹ دور ہو گئی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن وہ اور ان جیسے سیکڑوں افراد سات سال سے انصاف کے منتظر ہیں۔

’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں فیکٹری مالکان کو بھی بریٔ الذمّہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے فیکٹری میں آگ سے بچاؤ کے حفاظتی انتظامات کرنے کے بجائے اسے ایک قید خانے میں تبدیل کیا ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سنگین واقعے سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔

ان کے بقول سانحۂ بلدیہ کو سات سال گزرنے کے بعد بھی کراچی میں قائم متعدد فیکٹریوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سانحہ بلدیہ کب اور کیسے رونما ہوا تھا؟

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 11 ستمبر 2012 کو ایک گارمنٹس فیکٹری ’علی انٹر پرائز‘ میں آگ لگنے سے 259 افراد جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔

پولیس نے اسے پہلے صنعتی حادثہ قرار دیتے ہوئے فیکٹری مالکان کو ذمّہ دار ٹہرایا تھا اور ان کے خلاف غفلت، لاپرواہی اور قتلِ خطا کی دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔

لیکن فیکٹری مالکان سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد جان کے خطرے کے پیشِ نظر ملک سے چلے گئے تھے اور تاحال بیرونِ ملک مقیم ہیں۔

دوسری جانب اسی کیس کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی قائم کی گئی۔ جس نے تفتیش کے بعد انکشاف کیا کہ فیکٹری مالکان کی جانب سے 35 کروڑ روپے بھتّہ نہ دیے جانے پر مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے جان بوجھ کر فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔

اس الزام کے تحت انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی روشنی میں عدالت میں نیا مقدمہ دائر کیا گیا اور اب تک اس مقدمے کے نامزد ملزمان میں سے 2 گرفتار ہو چکے ہیں۔ گرفتار ملزمان میں رحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا شامل ہیں۔

اسی مقدمے میں ایم کیو ایم کے ایک رہنما رؤف صدیقی سمیت سات ملزمان ضمانت پر ہیں۔

رؤف صدیقی سمیت تمام ملزمان اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ جب کہ ایم کیو ایم کے ہی ایک سابق رہنما حمّاد صدیقی کو اسی مقدمے میں اشتہاری ملزم قرار دیا جا چکا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG