کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی سے بچوں اور خواتین سمیت مرنے والوں کی تعداد 20ہوگئی ہے ۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے لہذا خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
حب ریورروڈ سے متصل بلدیہ ٹاوٴن نمبر تین میں واقع تین منزلہ فیکٹری میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی جب مرد اور خواتین ورکرز اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے ۔عینی شاہدین کے مطابق آگ دیکھتے ہی دیکھتے شدید ہوتی چلی گئی جس سے فیکٹری میں اتفراتفری مچ گئی ۔ بہت سے لوگوں نے جان بچانے کیلئے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا دیں ۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق زیادہ تر افراد چھلانگیں لگانے سے زخمی ہوئے ۔
تین منزلہ اس عمارت کے مختلف حصوں میں گارمنٹس ، پلاسٹک اور دیگر کام کئے جاتے تھے ۔فیکٹری میں ایک اندازے کے مطابق خواتین سمیت دوہزار سے زائد افرادکام کرتے ہیں۔آگ بھڑکنے کی ایک وجہ فیکٹری میں موجود مختلف اقسام کا کیمیکل بھی بتایا جا رہا ہے ۔
فائربریگیڈ حکام نے آگ کی نوعیت بھانپتے ہوئے شہر بھر کی فائربریگیڈ ز ، اسنارکل اور دیگر اآگ بجھانے والے آلات طلب کرلئے ۔ زیادہ تر زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر کے مطابق سول اسپتال میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے ۔
آگ پر کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا ۔ آگ اتنی شدید تھی کہ شہر بھر کے کئی درجن فائرٹینڈر آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ ان میں پاکستان فوج، نیوی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے علاوہ دیگر اداروں کی آگ بجھانے والی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ریسکیو کا عملہ نصف رات تک فیکٹری سے جلی ہوئی لاشیں نکالتا رہا۔ عینی شاہدین اورزخمی فیکٹری ورکرز کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں آگ بجھانے کے آلات موجود نہیں تھے حالانکہ کچھ عرصہ پہلے بھی اسی فیکٹری میں آگ لگنے کا ایک اور واقعہ پیش آچکا تھا ۔
واٹر بورڈ نے آگ بجھانے والی گاڑیوں کو پانی کی فراہمی کے خصوصی انتظامات کئے ۔ادھرفیکٹری میں کام کرنے والوں کے رشتہ داروں اوردوست احباب کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر پہنچ گئی ۔
فیکٹری کے باہر نعمان نامی شخص نے وائس آف امریکا کوتبایا کہ اس کا بھائی پچیس سال سے اس فیکٹری میں کام کر رہا ہے ۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں ۔اسی طرح ایک اور شخض کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی اور وہ دونوں فیکٹری میں اکھٹے کام کرتے ہیں ۔ آج فیکٹری ورکرز کو تنخواہ دی جارہی تھی۔ وہ اپنی تنخواہ لیکر باہر آگیا تھا جبکہ اس کی بیوی لائن میں لگی ہوئی تھی۔
ہلاک اور زخمی ہونیوالوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انتظامیہ نے برنس وارڈ میں ایمرجنسی نافذ کر دی ۔ فیکٹری میں پھنسے لوگوں کے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کی بڑی تعداد پہنچ گئی ۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کر تا رہا ۔ بعض لوگ اپنے پیاروں کے موبائل فون نمبر بھی ملاتے رہے اور جواب نہ ملنے پر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ۔
رات بارہ بجے تک پہلی اور تیسری منزل سے بلند ہوتے آگ کے شعلے دور سے دکھائی دے رہے تھے ۔ آگ کی تپش کے باعث امدادی ٹیموں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق فیکٹری کے اندر اب بھی دم گھنٹے اور جھلسنے کے باعث مرنے والوں کی متعدد لاشیں ہو سکتی ہیں ۔ مرنے والوں کی حتمی تعداد آگ پر قابو پانے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی ۔
حب ریورروڈ سے متصل بلدیہ ٹاوٴن نمبر تین میں واقع تین منزلہ فیکٹری میں اس وقت آگ بھڑک اٹھی جب مرد اور خواتین ورکرز اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھے ۔عینی شاہدین کے مطابق آگ دیکھتے ہی دیکھتے شدید ہوتی چلی گئی جس سے فیکٹری میں اتفراتفری مچ گئی ۔ بہت سے لوگوں نے جان بچانے کیلئے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگا دیں ۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق زیادہ تر افراد چھلانگیں لگانے سے زخمی ہوئے ۔
تین منزلہ اس عمارت کے مختلف حصوں میں گارمنٹس ، پلاسٹک اور دیگر کام کئے جاتے تھے ۔فیکٹری میں ایک اندازے کے مطابق خواتین سمیت دوہزار سے زائد افرادکام کرتے ہیں۔آگ بھڑکنے کی ایک وجہ فیکٹری میں موجود مختلف اقسام کا کیمیکل بھی بتایا جا رہا ہے ۔
فائربریگیڈ حکام نے آگ کی نوعیت بھانپتے ہوئے شہر بھر کی فائربریگیڈ ز ، اسنارکل اور دیگر اآگ بجھانے والے آلات طلب کرلئے ۔ زیادہ تر زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر کے مطابق سول اسپتال میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ہے ۔
آگ پر کئی گھنٹے گزرجانے کے بعد بھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا ۔ آگ اتنی شدید تھی کہ شہر بھر کے کئی درجن فائرٹینڈر آگ بجھانے میں مصروف رہے۔ ان میں پاکستان فوج، نیوی اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے علاوہ دیگر اداروں کی آگ بجھانے والی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ریسکیو کا عملہ نصف رات تک فیکٹری سے جلی ہوئی لاشیں نکالتا رہا۔ عینی شاہدین اورزخمی فیکٹری ورکرز کا کہنا ہے کہ فیکٹری میں آگ بجھانے کے آلات موجود نہیں تھے حالانکہ کچھ عرصہ پہلے بھی اسی فیکٹری میں آگ لگنے کا ایک اور واقعہ پیش آچکا تھا ۔
واٹر بورڈ نے آگ بجھانے والی گاڑیوں کو پانی کی فراہمی کے خصوصی انتظامات کئے ۔ادھرفیکٹری میں کام کرنے والوں کے رشتہ داروں اوردوست احباب کی بڑی تعداد جائے حادثہ پر پہنچ گئی ۔
فیکٹری کے باہر نعمان نامی شخص نے وائس آف امریکا کوتبایا کہ اس کا بھائی پچیس سال سے اس فیکٹری میں کام کر رہا ہے ۔ اسے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں ۔اسی طرح ایک اور شخض کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی اور وہ دونوں فیکٹری میں اکھٹے کام کرتے ہیں ۔ آج فیکٹری ورکرز کو تنخواہ دی جارہی تھی۔ وہ اپنی تنخواہ لیکر باہر آگیا تھا جبکہ اس کی بیوی لائن میں لگی ہوئی تھی۔
ہلاک اور زخمی ہونیوالوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انتظامیہ نے برنس وارڈ میں ایمرجنسی نافذ کر دی ۔ فیکٹری میں پھنسے لوگوں کے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں کی بڑی تعداد پہنچ گئی ۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے اپنے پیاروں کی خیریت دریافت کر تا رہا ۔ بعض لوگ اپنے پیاروں کے موبائل فون نمبر بھی ملاتے رہے اور جواب نہ ملنے پر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ۔
رات بارہ بجے تک پہلی اور تیسری منزل سے بلند ہوتے آگ کے شعلے دور سے دکھائی دے رہے تھے ۔ آگ کی تپش کے باعث امدادی ٹیموں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق فیکٹری کے اندر اب بھی دم گھنٹے اور جھلسنے کے باعث مرنے والوں کی متعدد لاشیں ہو سکتی ہیں ۔ مرنے والوں کی حتمی تعداد آگ پر قابو پانے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی ۔