رسائی کے لنکس

سندھ حکومت کا بلدیہ فیکٹری سمیت تین 'جے آئی ٹیز' عام کرنے کا اعلان


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن سمیت مختلف گرفتاریوں کے بعد بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس (جے آئی ٹیز) عام کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جمعے کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان سندھ حکومت مرتضٰی وہاب نے بتایا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن، عزیر بلوچ اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز عام کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان جے آئی ٹیز میں پیپلزپارٹی کے کسی رہنما کا نام نہیں ہے۔

عزیر بلوچ کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما اور قومی راز غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں تک پہنچانے کے الزام میں گرفتار ہیں۔ اُنہیں کراچی کے علاقے لیاری میں گینگ وار کا بھی اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ نثار مورائی دہشت گردوں کے سہولت کار اور اُنہیں مدد فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار ہیں۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں 2012 میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں آتش زدگی سے 259 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

ترجمان سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ پیر تک یہ تینوں جے آئی ٹیز محکمہ داخلہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ عام طور پر یہ وہ دستاویزات ہوتی ہیں جو خفیہ ہوتی ہیں انہیں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کی بنیاد پر عدالت فیصلہ کرتی ہے۔ تاہم اب یہ دستاویزات محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر پیر تک اپ لوڈ کردی جائے گیں تاکہ جو بھی اس کا مطالعہ کرنا چاہے وہ کر سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پڑھ کر معلوم ہوجائے گا کہ کون اس بارے میں جھوٹ بولتا تھا۔

مرتضٰی وہاب کا کہنا تھا کہ تمام تحقیقاتی ادارے مل کر یہ رپورٹ تیار کرتے ہیں جو حکومت کے پاس جمع کرائی جاتی ہے اور پھر عدالت میں بھی پیش کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر بحری امور علی حیدر زیدی کا موقف رہا ہے کہ ان جے آئی ٹیز میں پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی اعلٰی قیادت کا ذکر موجود ہے جو ان واقعات میں ملوث رہی ہیں لیکن یہ رپورٹس جان بوجھ کر منظر عام پر نہیں لائی جا رہیں۔

بلدیہ فیکٹری میں 260 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بلدیہ فیکٹری میں 260 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

تاہم ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے علی زیدی نے ان رپورٹس کا واویلا مچایا ہوا تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

انہوں نے وفاقی وزیر کو چیلنج کیا کہ اگر ان جے آئی ٹی رپورٹس میں کہیں پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، رکن قومی اسمبلی فریال تالپور یا کسی اور کا ذکر ہو تو ضرور آگاہ کریں۔

مرتضیٰ وہاب کے مطابق ان جے آئی ٹیز کی اصل کاپی میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ ترجمان نے علی زیدی سے مطالبہ کیا کہ اب وہ یا تو قوم سے معافی مانگیں یا ان لوگوں سے جن کے بارے میں وہ ہر پریس کانفرنس میں جھوٹ بولتے آئے ہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ان کی جماعت کبھی الزامات سے نہیں بھاگی۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ الزامات کی انکوائری مکمل طور پر صاف اور شفاف طریقے سے ہونی چاہیے۔ جے آئی ٹی سندھ حکومت ہی نے قائم کی تھی اور اس کی رپورٹ بھی سندھ حکومت ہی کے پاس جمع کرائی گئی تھی۔

انہوں نے حکومت سندھ کی جانب سے جے آئی ٹیز کو اب تک خفیہ رکھنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ ملزمان اس سے فائدہ نہ اٹھائیں، تاہم مذکورہ جے آئی ٹیز کو اس لیے منظر عام پر لایا جا رہا ہے تاکہ ریکارڈ کی درستگی کی جا سکے۔

سندھ حکومت کی جانب سے جے آئی ٹیز کو پبلک کرنے کے معاملے پر وائس آف امریکہ نے وفاقی وزیر علی زیدی سے رابطے کی کئی بار کوشش کی مگر ان کی جانب سے کوئی ردعمل موصول نہیں ہوا۔

عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
عزیر بلوچ کو لیاری گینگ وار کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی رپورٹس کو پبلک کرنے کا حکم رواں سال جنوری میں دیا تھا۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے جنوری میں وفاقی وزیر سید علی زیدی کی درخواست پر سندھ حکومت کو حکم دیا تھا کہ کراچی میں 2012 میں ہونے والے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے علاوہ کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے رہنما عزیر بلوچ اور سابق نائب چیئرمین، فشرمین کوآپریٹیو نثار مورائی سے متعلق ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس کو جاری کیا جائے۔

درخواست گزار کے مطابق، ان جے آئی ٹیز میں مبینہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے کئی اہم رہنماؤں کے مجرمانہ ریکارڈ کے شواہد موجود ہیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جیسے گھناؤنے جرائم کی وجہ کیا تھی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ جمہوری نظام حکومت میں لوگوں کو جاننے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ اگر اس طرح کی بربریت کے واقعات رونما ہوں تو عوام کو اس کی معلومات کی رسائی سے نہیں روکا جا سکتا۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ عزیر بلوچ اور بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں پائی گئی جو قومی سلامتی کے خلاف ہے اس لیے ان رپورٹس کو پبلک کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

وفاقی وزیر علی زیدی (فائل فوٹو)
وفاقی وزیر علی زیدی (فائل فوٹو)

یہ جے آئی ٹیز کیوں اہم تصور کی جاتی ہیں؟

عام طور پر عادی مجرموں یا ایسے ملزمان جن کے خلاف سنگین واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات ہوں ان کے خلاف جے آئی ٹی قائم کر کے تحقیقات کرنا معمول ہے۔ واضح رہے کہ 2012 میں پیش آنے والے سانحہ بلدیہ میں انکشاف ہوا تھا کہ بھتہ نہ دینے پر فیکٹری کو کیمیکل ڈال کر جلا دیا گیا تھا جس سے 259 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کیس میں ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں کے ساتھ سابق کارکن رحمان عرف بھولا کا نام بھی آتا ہے جو گرفتار اور کیس کا مرکزی کردار مانا جاتا ہے۔ سندھ حکومت نے اس کیس میں تمام خفیہ ایجنسیوں بشمول آئی آیس آئی، آئی بی، سندھ پولیس، سندھ رینجرز اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی مشترکہ کمیٹی بنا کر اس کیس میں گرفتار ملزم رحمان بھولا سے تفتیش کی تھی۔

واضح رہے کہ اس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی ہی میں دوبارہ نیا کیس انسداد دہشت گردی قوانین کی روشنی میں درج کیا گیا۔ علی حیدر زیدی کے مطابق اس جے آئی ٹی میں ایم کیو ایم کے بعض سینئر رہنماوں کو ملزم نے مورد الزام اور اپنا شریک جرم ٹھیرایا تھا۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے سابق رہنما عزیر بلوچ کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف بھی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر اس کی تفتیش کی گئی تھی۔

قومی راز غیر ملکی ایجنسیوں کو فراہم کرنے کے الزامات کے تحت عزیر بلوچ کو 12 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

اسی طرح سابق چیئرمین فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی پر بھی مجرموں کی پشت پناہی کے الزام عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں بھی ایسے ہی الزامات سامنے آئے ہیں۔

وفاقی وزیر سید علی حیدر زیدی کا دعویٰ تھا کہ ان جے آئی ٹیز میں مبینہ طور پر ملزمان نے کئی ایسے سیاسی رہنماؤں کو بھی اپنا شریک جرم قرار دیا ہے جو پیپلز پارٹی میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG