|
ویب ڈیسک _ کینیڈین حکومت نے بھارت کے وزیرِ داخلہ پر الزام لگایا ہے کہ کینیڈا کی سر زمین پر سکھ علیحدگی پسند رہنما کو نشانہ بنانے کے منصوبے کی پشت پناہی امیت شاہ کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی حکومت کینیڈا کی جانب سے عائد الزامات کی پہلے سے تردید کرتی رہی ہے۔
امیت شاہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے انتہائی قریبی ساتھی ہیں جب کہ وہ حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سر کردہ رہنما بھی ہیں۔
امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے سب سے پہلے یہ رپورٹ شائع کی تھی کہ کینیڈا کے اعلیٰ حکام الزام لگا رہے ہیں کہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں پر تشدد اور انہیں نشانہ بنانے کی مہم کے پیچھے بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کا ہاتھ ہے۔
کینیڈا کے نائب وزیرِ خارجہ ڈیوڈ موریسن منگل کو ایک پارلیمانی پینل کے سامنے پیش ہوئے جہاں انہوں نے بیان دیا کہ، "میں نے ہی امریکہ کے اخبار کو یہ معلومات فراہم کی تھیں کہ سکھوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے امیت شاہ ہیں۔"
ڈیوڈ موریسن نے اپنے بیان کے حق میں کسی قسم کے ثبوت یا تفصیلات پیش نہیں کیں۔
کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں بھارت کے ہائی کمیشن یا نئی دہلی میں بھارتی وزارتِ خارجہ نے کینیڈین نائب وزیرِ خارجہ کے امیت شاہ پر عائد کیے گئے الزامات پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا۔
بھارت کے علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو گزشتہ برس جون میں مسلح افراد نے کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے ایک گرودوارے کے باہر قتل کر دیا تھا۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنے ایک بیان میں بھارت کو اس قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کینیڈا نے ان الزامات سے متعلق کبھی بھی شواہد پیش نہیں کیے۔
جسٹن ٹروڈو کے بیان کے بعد گزشتہ سال ہی بھارت نے کینیڈا سے نئی دہلی میں اپنے سفارتی عملے میں کمی کا مطالبہ کیا تھا جس پر کینیڈین حکومت نے 40 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔
رواں ماہ کے وسط میں بھی بھارت اور کینیڈا نے ایک دوسرے کے چھ، چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
رواں برس کے آغاز پر کینیڈین وزیرِ اعظم نے نجر کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ اس سنگین نوعیت کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھارت تعاون کرے گا۔
کینیڈا میں پولیس ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں کم از کم چار افراد گرفتار بھی کر چکی ہے۔
پولیس نے گرفتار افراد پر ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تحقیقات بھی کی جا رہی ہیں کہ ان افراد کا بھارت کی حکومت سے کسی قسم کا تعلق تو نہیں ہے۔
علاوہ ازیں امریکہ بھی کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کے واقعے کو سنگین معاملہ قرار دے چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق دیگر ممالک میں سکھ رہنماؤں کے قتل کی سازشوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا مبینہ کردار ایک سنگین معاملہ ہے۔ امریکہ اسے بہت سنجیدگی سے لے رہا ہے اور اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا رہے گا۔
امریکہ کا محکمۂ خارجہ بھی کہہ چکا ہے کہ بھارت میں تحقیقاتی کمیٹیوں کے نتائج کی بنیاد پر نئی دہلی کی حکومت سے جواب دہی کی توقع ہے۔ امریکہ اضافی معلومات کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے بھی گزشتہ برس بھارت کے ایک سابق انٹیلی جینس افسر وِکاس یادو پر امریکی سرزمین پر ایک اور سکھ رہنما گرپتوت سنگھ پنوں کے قتل کی ناکام سازش کا الزام لگایا تھا۔ اس منصوبے کو مبینہ طور پر امریکہ کے خفیہ اداروں نے ناکام بنا دیا تھا۔
امریکہ کے تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے کسی بھی امریکی شہری کو نشانہ بنانے کے خلاف خبردار کیا تھا۔
بھارت نے نومبر 2023 میں اعلان کیا تھا کہ وہ امریکہ کے عائد کردہ الزامات کی تحقیقات کرے گا۔ البتہ اس کے بعد بھارتی حکومت نے عوامی سطح پر ان تحقیقات کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
بھارت کو امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک چین سے مسابقت میں اپنا اہم اتحادی سمجھتے ہیں۔ تاہم امریکہ اور کینیڈا کے بھارتی حکومت پر الزامات ان کے تعلقات کے لیے بھی امتحان قرار دیے جا رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔