|
کراچی -- پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت نہ کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ سیاسی تعلقات کا معاملہ اُن کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات کئی برسوں سے کشیدہ ہیں اور 2019 میں دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بھی محدود ہو گئے تھے۔ تاہم رواں ماہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے دوران بھارتی وزیرِ خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران رُکن ممالک کے درمیان تجارتی روابط کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔
اگرچہ پاکستان کی ایس سی او ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت میں حصہ پانچ فی صد سے بھی کم ہے تو دوسری جانب پاکستان کی اپنے خطے میں یعنی جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک ممالک سے بھی مجموعی تجارت بہت کم ہے۔
اگر ہمسایہ ممالک کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی چین کے سوا کسی بھی ملک سے کوئی قابلِ ذکر تجارت نظر نہیں آتی۔ چین کے علاوہ افغانستان اور ایران سے تجارتی تعلقات تو موجود ہیں۔ لیکن بھارت سے یہ تعلقات گزشتہ پانچ سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی معطل ہیں۔
سن 2019 میں بھارتی کشمیر کے ضلع پلوامہ میں سینٹرل ریزرو فوج (سی آر پی) کے قافلے پر حملے میں 40 سے زائد اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ بھارت نے ان حملوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے تجارت کے لیے پاکستان کو دیا گیا 'موسٹ فیورٹ نیشن' کا درجہ واپس لے کر پاکستانی مصنوعات پر 200 فی صد امپورٹ ڈیوٹی عائد کر دی تھی۔
بعدازاں پاکستان نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہونے کے بعد بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی روابط معطل کر دیے تھے۔
اس سے قبل پاکستان، بھارت سے کاٹن، کیمیکلز، پلاسٹک اور مختلف قسم کی مشینری اور ادویات منگوا رہا تھا۔ تاہم دوسری جانب بھارت، پاکستان سے پھل، معدینات، سوڈا ایش، نمک سمیت دیگر اشیا بڑے پیمانے پر منگوا رہا تھا اور تجارت کا توازن زیادہ تر بھارت ہی کے حق میں رہتا تھا۔
لیکن تجارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد نہ صرف حکومتی سطح بلکہ عوامی سطح پر بھی اسے بحال کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں۔
رواں سال مارچ میں بھی پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے برطانیہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی کا عندیہ دیا تھا جسے بھارت اور پاکستان دونوں کے کاروباری طبقے نے مثبت پیش رفت قرار دیا۔ لیکن اب تک اس جانب کوئی ٹھوس پیش رفت نظر نہیں آتی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کو بھارت سمیت دیگر ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے سے کیا فوائد مل سکتے ہیں؟
وائس آف امریکہ نے جن ماہرین سے گفتگو کی ان میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ تجارتی روابط کو بحال کرنے میں خطے کی حکومتوں کے سیاسی عزم کی کمی ظاہر ہوتی ہے۔
'دونوں ملکوں کا تجارتی حجم 20 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتا ہے'
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کی تجارت کھول دی جائے تو اس میں پلڑا بھارت ہی کا بھاری دکھائی دے گا۔ لیکن پاکستان کے پاس اس کے باوجود بہت کچھ ہے جو وہ بھارت کو بیچ کر اچھے ڈالر کما سکتا ہے۔
اُن کے بقول اس وقت پاکستان کو اپنے معاشی حالات سدھارنے کے لیے اس کی کافی ضرورت ہے جب کہ پاکستان کو کئی زرعی مصنوعات نسبتاً سستے داموں مل سکتی ہیں جو پاکستان دیگر ممالک سے خریدنے پر زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 20 سے 30 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب بھارت میں یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ اس کی معیشت اس قدر قابل اور مستحکم ہو چکی ہے کہ اسے پاکستان کی اب ضرورت نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سنجیدہ طبقہ اور خود حکومت جانتی ہے کہ پاکستان کے راستے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک تجارت کا راستہ مل سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس کا اظہار بھارت کی سابق وزیر برائے تجارت انوپریا پٹیل نے بھی فروری 2024 میں لوک سبھا میں ایک سوال کے جواب کے دوران کیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وسطی ایشیا کے ممالک سے بھارت کی تجارت کا دارومدار پاکستان کی جانب سے تجارتی راہداری کی فراہمی سے ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت سے تجارت یکطرفہ طور پر بند کی تھی۔ لہٰذا ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ ٹرانزٹ ان کی سرزمین سے ہو گی۔
'پاکستان نے بنگلہ دیش کو تجارتی منڈی بنانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی'
شمس الاسلام کے خیال میں پاکستان نے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تعلقات کو استوار کرنے کا ایک اور موقع حال ہی میں اس وقت گنوا دیا ہے جب وہاں حکومت کی تبدیلی عمل میں لائی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے باعث پاکستان بنگلہ دیش کو پیاز، چاول اور دیگر زرعی اشیاٗ کی ایکسپورٹ کی پیش کش کر سکتا تھا جو اب تک بھارت کی منڈی تھا۔ لیکن پاکستان نے اب تک ایسی کوئی آفر بنگلہ دیش کو نہیں بھیجی۔
انہوں نے بتایا کہ ویسے تو سارک ممالک نے آزادانہ تجارت کے فروغ اور ایک دوسرے کی اشیا پر ٹیرف کم رکھنے کے لیے کیے گئے ساوتھ ایشیا فری ٹریڈ ایگریمنٹ (سافٹا) پر 2004 میں دستخط کیے تھے اور اسے 2016 تک مکمل طور پر نافذ العمل ہو جانا تھا۔ لیکن سارک میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعات کے باعث اس میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ حتیٰ کہ 10 سال سے سارک سربراہی اجلاس بھی نہیں ہو سکا۔
ایران اور افغانستان سے بارٹر سسٹم کتنا فائدہ مند ہو سکتا ہے؟
دوسری جانب ایران اور پاکستان کے درمیان تجارت کا حجم ویسے تو تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ لیکن بینکوں کے ذریعے رسمی تجارت ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے باعث گزشتہ سال محض 35 ہزار ڈالر تک محدود رہی۔
شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے باوجود بھی ایرانی معیشت نے کافی ترقی کی ہے اور وہاں سے بہت سی اشیا پاکستانی مارکیٹ میں سستے داموں میسر آ سکتی ہیں۔ پاکستان ایران کو کئی زرعی اجناس وافر مقدار میں فراہم کر سکتا ہے۔
اُن کے بقول حال ہی میں حکومتِ پاکستان نے روس اور افغانستان کے علاوہ ایران سے بارٹر ٹریڈ (مال کے بدلے مال کی تجارت) کی اجازت دے دی ہے جس کا مقصد ان ممالک پر عائد عالمی پابندیوں کو بائی پاس کرنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بارٹر ٹریڈ میکنزم میں 26 ایسی اجناس کی فہرست شامل ہے جسے پاکستان کے ریاستی اور نجی ملکیتی ادارے افغان، ایرانی اور روسی منڈیوں میں برآمد کر سکتے ہیں۔
اس کے بدلے وہ تینوں ممالک سے خام تیل، مائع قدرتی گیس، مائع پروپین گیس، کیمیائی مصنوعات، کھاد، پھل، گندم، صنعتی مشینری اور سبزیاں درآمد کر سکتے ہیں۔ لیکن ابھی بارٹر ٹریڈ کے فوائد سامنے آنا باقی ہیں۔
اسی طرح ماہرین تجارت کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات بڑھانے کے مواقع بھی موجود ہیں۔ افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی پاکستان ہی ہے۔ پاکستان افغانستان کو زرعی اجناس کی فراہمی کے علاوہ کھاد، چینی، مختلف آلات سمیت بہت سی مصنوعات فراہم کررہا ہے جس میں آنے والے وقتوں میں مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے۔
تجارتی امور کے ماہر عثمان بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سے خشک میوہ جات، پھل اور کوئلہ تو منگوا ہی رہا ہے۔ لیکن افغانستان میں لیتھیم کی دریافت نے جہاں اس ملک کے لیے بہت سے مواقع کھول دیے ہیں وہیں خطے کی تجارت میں بھی یہ اہم ثابت ہوں گے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر کی مالیت ایک سے تین ٹریلین ڈالر ہے جو چارج ایبل بیٹریز میں کام آتا ہے۔
چین کے ساتھ تجارتی توازن پاکستان کے حق میں کیسے آ سکتا ہے؟
ادھر چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر رائے دیتے ہوئے شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی حجم 25 ارب ڈالر سے زائد ہے اور اس میں پاکستان کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں۔ لیکن تجارتی حجم میں اضافے اور پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے بہت سے مواقع ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چاول کی برآمدات بڑھانے کے لیے بہت سے مواقع موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ بیجنگ مصنوعات درآمد کرنے سے قبل ان کے معیار کے لیے سخت قواعد و ضوابط رکھتا ہے۔ اس پر پورا اترنے کے لیے پاکستانی کمپنیوں کو جہاں اپنی مصنوعات کا معیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے وہیں انہیں ویلیو ایڈیشن کی بھی ضرورت ہے۔
عثمان بیگ کا کہنا تھا کہ چین دنیا بھر سے تین ہزار ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے اور اس کی انڈسٹری اب ہائی ٹیک اشیا بنا رہی ہے جس کے لیے خام مال اور پرزے سمیت ہر قسم کا سامان تیار کر کے چین کو فروخت کرنے کے مواقع تو ہیں۔ لیکن اس کے لیے پاکستان میں ابھی بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا تجارت کے لحاظ سے سب سے زیادہ منقطع خطوں میں سے ایک ہے جب کہ وسط ایشیا کے خشکی میں گھرے ممالک سے بھی پاکستان کے تجارتی تعلقات استوار ہوں تو پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک ہو گا۔
فورم