رسائی کے لنکس

بھارت میں وکی پیڈیا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ: کیا پابندی لگ سکتی ہے؟


  • بھارت میں ’وکی پیڈیا‘ کے خلاف مقدمے کی سماعت میں سخت عدالتی ریمارکس کے پیشِ نظر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
  • سوشل میڈیا پپر بعض صارفین پابندی کے خدشات ظاہر کر رہے ہیں۔
  • بھارتی خبر رساں ادارے ’ایشین نیوز انٹرنیشنل‘ (اے این آئی) نے اگست میں وکی پیڈیا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔
  • وکی پیڈیا کا مؤقف ہے کہ کسی بھی قسم کی پابندی سے بچنے کے لیے جلد ہی اقدامات کیے جائیں گے۔
  • وکی پیڈیا کے کام کرنے کے طریقے بالخصوص ایڈیٹنگ کے لیے ہر شخص کو آزادی خطرناک ہے: دہلی ہائی کورٹ

نئی دہلی — بھارت میں آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’وکی پیڈیا‘ کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے اور اس کی سماعت کے دوران عدالت کے سخت ریمارکس کے پیشِ نظر سوشل میڈیا یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا بھارت میں وکی پیڈیا کو بلاک کر دیا جائے گا؟

وکی پیڈیا کا مؤقف ہے کہ کسی بھی قسم کی پابندی سے بچنے کے لیے جلد ہی اقدامات کیے جائیں گے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ عوام کو محفوظ ماحول میں مفت اور قابلِ بھروسہ معلومات فراہم ہوتی رہیں۔

بھارتی خبر رساں ادارے ’ایشین نیوز انٹرنیشنل‘ (اے این آئی) نے اگست میں وکی پیڈیا کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔

اے این آئی کا الزام ہے کہ اس کے وکی پیڈیا پیج پر غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

اے این آئی کے مطابق اس کے وکی پیڈیا پیج پر درج کیا گیا کہ یہ ایجنسی اپنی ویب سائٹ پر حکومت کا پروپیگنڈا کرتی ہے۔ اس پر جعلی نیوز ویب سائٹ کے وسیع نیٹ ورک سے مواد تقسیم کرنے اور متعدد مواقع پر غلط رپورٹنگ کا الزام ہے۔

اے این آئی نے اس الزام کی تردید کی اور وکی پیڈیا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں دو کروڑ روپے کے ہرجانے کا کیس دائر کر دیا۔

وکی پیڈیا ایک امریکی ادارے ’وکی میڈیا‘ کا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے۔

وکی میڈیا فاونڈیشن نے بھارت کے ایک اخبار ’دی ہندو‘ کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ اے این آئی کے پیج کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اس پر قائم ہے۔ اس کے بقول اندراج میں دی گئی تفصیلات قابل اعتماد ذرائع سے ثابت ہیں۔

اس کے مطابق جن صارفین نے 300 سے زیادہ ترامیم کی ہیں اور جن کا اکاؤنٹ کم از کم ایک ماہ پرانا ہے، وہ صفحے کو ’بہتر‘ کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے چار دن قبل 25 اکتوبر کو اس معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وکی پیڈیا کے کام کرنے کے طریقے بالخصوص ایڈیٹنگ کے لیے ہر شخص کو دی گئی آزادی خطرناک ہے۔

سماعت کرنے والے بینچ میں شامل جسٹس سبرامنیم پرساد نے استفسار کیا کہ وکی پیڈیا کا پیج کس قسم کا ہے جس پر ہر شخص ایڈیٹنگ کر سکتا ہے؟

وکی پیڈیا کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل جینت مہتہ نے کہا کہ صارفین کو صفحہ سازی یا فراہم کردہ اطلاعات کو اپ ڈیٹ کرنے میں قوانین کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔

ان کے مطابق وکی پیڈیا فیس بک یا دیگر سوشل میڈیا پیجز کی طرح نہیں ہے جہاں ہر کوئی پیج بنا سکتا اور کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس کے پیج کے ہر شخص کے لیے کھلے ہونے کی وجہ سے اسے اعتبار حاصل ہوا ہے۔ ہر اطلاع کو معتبر ذرائع سے جانچا جاتا ہے۔

اے این آئی کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے ایڈووکیٹ سدھانت کمار نے کہا کہ اگرچہ وکی پیڈیا اپنی اطلاعات کو فیکٹ کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن یہ ہتک عزت کا مجموعہ ہے۔

اس سے قبل سماعت کے دوران عدالت نے وکی پیڈیا کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان تین صارفین کے بارے میں بتائے جنھوں نے اے این آئی کے وکی پیڈیا پیج کو ایڈٹ کیا تھا۔ اگر اس نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا تو وہ حکومت کو حکم دے گی کہ وہ وکی پیڈیا کو بلاک کر دے۔

سماعت کے دوران اے این آئی کا استدلال تھا کہ وکی پیڈیا ایک ایسا سوشل میڈیا ادارہ ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے دائرے میں آتا ہے۔

واضح رہے کہ بھارت میں اس کے 50 لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ صارفین ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس قسم کے اداروں کو مرکزی حکومت کے ضابطوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ اس میں ’انٹرمیڈئیری گائیڈ لائنسز اینڈ ڈیجٹل میڈیا اتھکس کوڈ 2021 ‘ کی پابندی شامل ہے۔

ان کے مطابق ایسے اداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ شکایات پر کارروائی کا میکنزم بنائیں اور شکایت افسر اور رابطہ کار مقرر کریں۔

'وکی پیڈیا' ایک فری آن لائن انسائیکلوپیڈیا ہے جو کہ امریکہ کے شہر سان فرانسسکو میں قائم غیر سرکاری تنظیم ’ویکی میڈیا فاؤنڈیشن‘ کے تحت چلایا جاتا ہے۔

وکی پیڈیا کو 2001 میں قائم کیا گیا جو دنیا کی سب سے بڑی حوالہ جاتی ویب سائٹ کے طور پر مشہور ہے۔ اس پر بیش تر معاملات میں صارفین کو صفحات کی ایڈیٹنگ کی اجازت ہوتی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس ویب سائٹ پر 300 زبانوں میں چھ کروڑ 30 لاکھ مضامین ہیں۔

سال 2007 سے 2023 تک وکی پیڈیا کے لیے چار زبانوں تیلگو، اردو، ہندی اور انگریزی میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے پونے میں مقیم حیدرآباد کے احمد نثار کا کہنا ہے کہ متعدد تنازعات کی وجہ سے انہوں نے وکی پیڈیا سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی سائنس اور جغرافیہ سے متعلق مضامین کے لیے اسی کو حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق وکی پیڈیا بہت اچھا پلیٹ فارم ہے۔ اس میں کمیونٹی کی بنیاد پر ایڈیٹنگ ہوتی ہے۔ یعنی اس پر رجسٹرڈ ایڈیٹرز کی ایک کمیونٹی ہوتی ہے جن کا ایک قائد ہوتا ہے۔ اس کو غلط ترامیم یا ایڈیٹنگ کو بلاک کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اگر وکی پیڈیا پر کسی زبان کا صفحہ نہیں ہے اور اس زبان سے متعلق کوئی شخص ایک درخواست دے کر یہ کہے کہ اس زبان کا ایسا اور اتنا سرمایہ ہے اور وہ اس زبان میں وکی پیڈیا پیج شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کی اجازت مل جاتی ہے۔

باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت سے افراد ایڈیٹنگ کی آزادی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر حقیقی اور بے بنیاد مواد بھی پوسٹ کر دیتے ہیں۔ تاہم کسی تنازعے کے پیدا ہونے پر حکومت وکی میڈیا فاونڈیشن کو کسی مضمون کو ہٹانے کی ہدایت دے سکتی ہے۔

اس سے پہلے بھی وکی پیڈیا تنازعات کی شکار ہوئی ہے۔

گزشتہ سال کرکٹر ارشدیپ سنگھ کے صفحے پر مبینہ قابلِ اعتراض ترامیم کی گئی تھیں جس پر اس وقت کے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے وزیرِ مملکت راجیو چندر شیکھر نے کہا تھا کہ مذکورہ ترامیم انڈین انٹرنیٹ کے لیے حکومت کے ضابطوں کے منافی ہیں۔

ویب سائٹ نے ترامیم کو ہٹا دیا تھا اور اس صفحے میں ترامیم کے لیے چند ایڈیٹرز کو ہی اختیاردیا گیا تھا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وکی پیڈیا کارروائی یا بلاک کیے جانے سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر چین نے کئی برس سے اس کو بلاک کر رکھا ہے۔

جب کہ روس نے اسے بلاک تو نہیں کیا۔ البتہ یوکرین جنگ کے بعد روسی زبان کے اس کے متعدد رضاکار ایڈیٹرز کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ ویب سائٹ پر درج کیا جائے کہ اس نے روسی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

جرمن عدالت نے 2019 میں فاونڈیشن کو ہدایت کی کہ وہ ماہر تعلیم الیکس وائبل کے بارے میں ایک مضمون کے پرانے ورژن کے ریکارڈ کو ہٹا دے۔

امریکہ میں اسے مسلسل قانونی کارروائیوں کا سامنا رہا ہے۔ تاہم ویب پلیٹ فارم کو حاصل ملکی تحفظ کی وجہ سے تقریباً تمام کیسز کو یا تو واپس لے لیا گیا یا وکی پیڈیا کے حق فیصلہ کر دیا گیا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG