رسائی کے لنکس

بھارت اور کینیڈا کی ایک دوسرے کے سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • بھارت کو اپنے ہائی کمشنر اور دیگر سفارتی عملے کی سیکیورٹی سے متعلق کینیڈین حکومت پر اعتماد نہیں ہے: بھارتی وزارتِ خارجہ
  • کینیڈین حکام کے مطابق سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں بھارتی ہائی کمشنر اور دیگر سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔
  • کینیڈین حکومت کا یہ اقدام ناقابلِ قبول اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش ہے: بھارتی وزارتِ خارجہ

ویب ڈیسک -- بھارت اور کینیڈا نے ایک دوسرے کے چھ، چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے۔

بھارت اور کینیڈا کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی کشیدگی کے باعث بھارت نے قائم مقام کینیڈین ہائی کمشنر سمیت چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق کینیڈا نے بھی بھارتی ہائی کمشنر سمیت اس کے چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔

دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں ایسے وقت تناؤ دیکھنے میں آ رہا ہے جب کینیڈین حکومت نے اعلان کیا ہے کہ خالصتان کے حامی سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے سلسلے میں بھارتی ہائی کمشنر اور دیگر عملے سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

پیر کو بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہمیں اپنے ہائی کمشنر اور دیگر سفارتی عملے کی سیکیورٹی سے متعلق کینیڈین حکومت پر بھروسا نہیں ہے۔ لہذٰا انہیں واپس بلایا جا رہا ہے۔"

بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق اتوار کو اُنہیں کینیڈا سے ایک سفارتی مراسلہ موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور دیگر سفارت کاروں سے ہردیپ سنگھ نِجر کے کیس میں تفتیش کی جائے گی۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے ان الزامات کو 'مضحکہ خیز' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کینیڈین حکومت اس معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پیر کو نئی دہلی میں تعینات کینیڈین ناظم الامور کو طلب کر کے بھارت نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے اور واضح کیا ہے کہ بھارتی سفارت کاروں کو بے بنیاد الزامات کی آڑ میں ہدف بنانا ناقابلِ قبول ہے۔

45 سالہ سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ برٹش کولمبیا کے گرودوارے کے باہر اپنی کار میں بیٹھے تھے۔ کینیڈا نے اس قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے تعلق کا الزام لگایا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی گزشتہ سال ستمبر میں اپنے ایک بیان میں بھارت کو اس قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات مزید خراب ہو گئے تھے۔

بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کینیڈا نے ان الزامات سے متعلق کبھی بھی شواہد پیش نہیں کیے۔

کینیڈین وزیرِ اعظم کے بیان کے بعد بھارت نے کینیڈا سے نئی دہلی میں اپنے سفارتی عملے میں کمی کا مطالبہ کیا تھا جس پر کینیڈا نے 40 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔

جون میں کینیڈین پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی نے انٹیلی جینس معلومات کی بنیاد پر چین اور بھارت کو کینیڈا کے جمہوری اداروں کے لیے بڑا غیر ملکی خطرہ قرار دیا تھا۔

کینیڈا میں بھارت کے ہائی کمیشن نے اس رپورٹ کو سیاسی اور سکھ علیحدگی پسندوں کی مہم قرار دیا تھا۔

رواں برس کے آغاز پر کینیڈین وزیرِ اعظم نے نجر کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ اس سنگین نوعیت کے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بھارت ہمارے ساتھ بات کرے گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG