وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ چینی درآمدات پر 18 ارب ڈالر کے محصولات عائد کیے جا رہے ہیں، جن کا اثر اسٹیل، ایلومینیم، سیمی کنڈیکٹر چپ، بیڑیاں، اہم معدنیات، سولر سیلز اور کرینوں پر پڑے گا۔
معاشی مبصرین کے مطابق یہ چھ ارب ڈالر کا نیا پروگرام ہوگا جو پاکستان آئندہ تین برس کے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہونے کے باعث پیدا ہونے والا خسارہ ہے۔
پنشن حکومت کے مالی وسائل پر مسلسل بڑھتا ہوا بوجھ ہے۔ عالمی بینک نے 2020 میں پاکستان کو انتباہ کیا تھا کہ پنشن اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں آئندہ چند برسوں میں حکومت کے پاس اپنے ترقیاتی اخرجات کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔
بھارتی ایئر لائن 'ایئر انڈیا' کے پائلٹ اجتماعی طور پر بیماری کی چھٹی پر چلے گئے جس کی وجہ سے فضائی کمپنی کو نہ صرف بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے بلکہ کمپنی کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی گرتی ہوئی سیلز پر کمپنیاں کافی پریشان ہیں اور صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے آفرز پیش کر رہی ہیں۔
افغانستان انٹرنیشنل ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں تینوں ملکوں کے عہدے داروں کا اجلاس 26 اپریل کو ہوا تھا جس میں ہرات کے ایک قصبے تورغوندی میں خشک بندرگاہ بنانے پر بات چیت ہوئی۔
ایف بی آر کے مطابق ملک بھر میں ٹیکس نادہندگان کے خلاف پہلے مرحلے میں قابلِ ذکر آمدنی رکھنے کے باوجود انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والے پانچ لاکھ چھ ہزار 671 افراد کی موبائل فون سمیں بلاک کی ہیں۔
بھارت کے دورے کی منسوخی سے قبل مسک نے طے شدہ پروگرام کے تحت گزشتہ ہفتے مودی سے ملاقات کرنی تھی اور تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے کار پلانٹ بنانے کا اعلان کرنا تھا۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنا ارادہ بدل لیا کہ ان کی جانب سے ذمہ داریاں بہت سخت ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے اور قابلِ بھروسہ سپلائی نہ ہونے نے شہریوں کا شمسی توانائی پر انحصار بڑھایا دیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں بجلی کی قیمت میں تاریخی اضافہ ہوا اور بجلی کی فی یونٹ اوسط قیمت 48 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔
عالمی بینک کا قیاس ہے کہ کشیدگی اور تنازعات کے سبب ایندھن کی سپلائی لائن کو درپیش رکاوٹوں سے خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت 92 ڈالر تک جا سکتی ہے اور مزید خرابی کی صورت میں یہ قیمت 100 کا ہندسہ بھی عبور کر سکتی ہے۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاکستان کے موقع پر دونوں ممالک نے تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن کیا ایران پر عالمی پابندیوں کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک تجارت کو فروغ دے سکیں گے؟ جانتے ہیں علی فرقان کی اس ویڈیو میں۔
لیکن معاشی اعشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے کچھ آثار نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں۔ اس پر سرکاری حکام کی جانب سے اطمینان اور اپنی کامیابیوں کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے۔
مزید لوڈ کریں