پاکستان کی فوج کے رفاہی ادارے کے طور پر کام کرنے والے ’فوجی فوڈز‘ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی پاکستان سے چین دودھ برآمد کیا جائے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گرین انرجی کے کچرے کو ری سائیکل کرنے سے دوہرے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف اس کچرے میں کمی آئے گی بلکہ ان کے دوبارہ قابل استعمال ہونے سے، ان آلات کی تیاری میں درکار اہم معدنیات کو منگوانے کی ضرورت میں بھی کمی آئے گی۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ماہ کازان میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی میزبانی میں منعقد ہونے والے برکس سربراہی اجلاس میں شرکت کی، اس وقت انقرہ نے کہا کہ اس نے گروپ کا رکن بننے کے لیے باضابطہ اقدامات کیے ہیں۔
اسٹیل، ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اینٹوں کے بھٹے اور بیشتر دیگر صنعتیں پراسیسنگ کے عمل کے دوران کالا دھواں ہوا میں پھیلانے کا باعث بنتی ہیں۔ محکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب کا دعویٰ ہے کہ انڈسٹریز کو ڈی کاربنائز کرنے کا عمل جاری ہے اور اس برس لاہور اسموگ کا مشاہدہ نہیں کرے گا۔مزید تفصیلات ثمن خان کی اس رپورٹ میں۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق نائب صدر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کی تجارت کھول دی جائے تو اس میں پلڑا بھارت ہی کا بھاری دکھائی دے گا۔ لیکن پاکستان کے پاس اس کے باوجود بہت کچھ ہے جو وہ بھارت کو بیچ کر اچھے ڈالر کما سکتا ہے۔
سابق وزیرِ نجکاری کا کہنا ہے کہ حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری کی سیاسی قیمت کا اندازہ بھی ہے کیوں کہ ماضی میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) ، اس کی اتحادی پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم کے ہمدردوں کو بھی بڑی تعداد میں پی آئی اے میں ملازمتیں دی گئی ہیں۔
اکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان بیرونی سرمایہ کاری کے لیے کاروباری ماحول بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اسلام آباد نے آئى ایم ایف سے پاکستان میں ماحولیاتی اثرات سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنڈنگ کی باضابطہ درخواست کی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بینکاری نظام بلا سو ہو سکتا ہے اور اس وقت بھی کچھ بینک یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ اگر اسٹیٹ بینک اس میں اپنا کردار زیادہ ادا کرے تو آئندہ چند برسوں کے دوران اس نظام کو مکمل طور پر اسلامی نظام کے تحت لانا مشکل نہیں ہے۔
پاکستان میں پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ پاکستان کے اس تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کس نوعیت کے ہیں اور ان میں بہتری کی کتنی گنجائش ہے؟ جانتے ہیں محمد ثاقب کی اس رپورٹ میں۔
ماہرین کی ریسرچ نے ممالک کی کامیابی اور ناکامی کی بنیادی وجوہات کی جڑ تک پہنچنے میں مدد دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ آمدنی والے کاشت کاروں پر 15 فی صد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ 12 سے 16 لاکھ سالانہ آمدن والے کسانوں سے 20 فی صد جب کہ 16 سے 32 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 30 فی صد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔
مزید لوڈ کریں