خورشید شاہ نے کہا کہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کی کوششوں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔ ’’ڈریں سازش ابھی بھی ہو رہی ہے، یہ نا سمجھیں کہ ہم نے جیت لیا ہے۔ سیاست اس کا نام ہے جس میں تحمل ہو، بردباری ہو، جذبات سے عاری ہو۔‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین نے کہا ہے کہ اُن کی جماعت کی ’کور کمیٹی‘ نے یہ فیصلہ کیا کہ بدھ کو اُن کے اراکین پارلیمان میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے جائیں گے۔ اُدھر سیاسی جماعتوں نے حکومت کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ پارلیمنٹ اُن کے ساتھ کھڑی ہے
وفاقی حکومت اور اس کے بعد پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے وزیر اعظم کو مستعفی ہونے یا چھٹی پر جانے کے مشورے کے حوالے سے خبریں بے بنیاد ہیں۔
عمارت میں مظاہرین کے قبضے اور سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہونے کے بعد رینجرز اور پھر فوج کے دستے وہاں پہنچے اور مظاہرین کو عمارت خالی کرنے کو کہا کہ جس کے بعد مظاہرین وہاں سے نکل گئے۔
صحافیوں کی ایک نمائندہ تنظیم پی ایف یو جے کے عہدیدار امین یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ صحافیوں پر تشدد اس ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے جو ان کے بقول سچائی کا سامنا کرنا نہیں چاہتی۔
وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور خاص طور پر پارلیمان اور اس کے اردگرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہزاروں اہلکار بدستور تعینات ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس دھرنے سے پاکستان کی ترقی کو بے پناہ نقصان پہنچا ہے، اُنھوں نے کہا کہ اس سے چین کے صدر کے دورہ پاکستان میں بھی رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے فوج کو ضامن اور ثالث بننے کا کبھی بھی نہیں کہا گیا اور "سہولت کار کے طور پر فوج کا کردار آئینی ہے۔"
رواں ہفتے کے دوران وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ کے درمیان یہ دوسری ملاقات تھی جس میں موجودہ سیاسی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
وزیر دفاع کا وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’’وفاقی حکومت کو اگر مشکلات پیش ہیں تو (فوج) آئین اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، کسی فرد یا ذات کے ساتھ نہیں کھڑی ہے۔‘‘
سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رابطوں میں بھی تیزی آئی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ ’ایم کیو ایم‘ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے منگل کو مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔
طاہرالقادری نے وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لیے 48 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا کہ اُس کے بعد وہ کسی بھی اقدام کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ ’’وزیراعظم کا استعفیٰ مانگنا ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
اُدھر شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’’تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی نے کور کمیٹی کے متفقہ فیصلے اور عمران خان کی ہدایت کے مطابق آج اپنے استعفےٰ جمع کروا دیئے ہیں۔‘‘
امریکی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں واضح کیا گیا کہ امریکہ فریقین کے مابین کسی طرح کی بات چیت میں شامل نہیں ہے۔
بدھ کو پہلی مرتبہ ایک پارلیمانی کمیٹی نے طاہر القادری سے ملاقات کی جس میں وفاقی حکومت کے دو وزرا بھی شامل تھے۔
عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیرِاعظم میاں نواز شریف بدھ کی شام تک مستعفی نہ ہوئے تو وہ اور ان کے کارکن وزیرِاعظم ہاؤس جائیں گے۔
یہ اجلاس 25 اگست کو اسلام آباد میں ہونا تھا۔ پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان کے مطابق، ’دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات سے قبل نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی روایت رہی ہے‘
اسلام آباد میں جاری دھرنے کے شرکا سے خطاب میں، عمران خان نے کہا کہ ’ریڈ زون میں سب سے آگے میں ہوں گا۔۔۔۔۔پولیس کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ عمران پر گولی چلائی جائے یا نہیں۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی پولیس عمران خان پر گولی نہیں چلائے گی‘
عمران خان نے وزیرِاعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا کہ قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ نواز شریف سے استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائے گی۔
مزید لوڈ کریں