پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پیر کی صبح حکومت مخالف مظاہرین نے پاک سیکریٹریٹ کے سامنے رکھی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جب کہ اُن کے ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔
عمارت میں گھسنے کے بعد مظاہرین نے وہاں نشریاتی آلات کو نقصان بھی پہنچایا جس کی وجہ سے نشریات معطل ہو گئیں، تاہم فوج کی مداخلت کے بعد سرکاری ٹی وی کی عمارت خالی کروائے جانے پر نشریات دوبارہ بحال ہو گئیں۔
عمارت پر مظاہرین کے قبضے اور سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہونے کے بعد رینجرز اور پھر فوج کے دستے وہاں پہنچے اور مظاہرین کو عمارت خالی کرنے کو کہا کہ جس کے بعد مظاہرین وہاں سے نکل گئے۔
بعض ٹی وی چینلز پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق فوج کا افسر سرکاری ٹی وی کی عمارت میں داخل ہونے والے مظاہرین کو باہر نکلنے کے لیے کہہ رہا تھا۔
احتجاج کرنے والی جماعت عمران خان نے کہا کہ پی ٹی وی کی عمارت میں اُن جماعت کا کوئی کارکن داخل نہیں ہوا، اُنھوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کو پرامن رہنے کی اپیل بھی کی۔
’’آپ اس جیت کو ہار میں نا بدل دینا کہ ہم کوئی غلط کام کر دیں۔۔۔ کہ لوگ دیکھیں کہ پرامن لوگ توڑ پھوڑ کر رہے ہیں، سارا میڈیا دیکھ رہا ہے۔‘‘
عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے بھی اپنے کارکنوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔
پی ٹی وی کے مینجنگ ڈائریکٹر عبد المالک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب عمارت کی حفاظت پر رینجرز تعینات ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس حملے سے بیرون ملک پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
پیر کی صبح جب مظاہرین نے آگے بڑھنا شروع کیا تو پولیس کے ساتھ اُن کی جھڑپ بھی ہوئی لیکن بعد میں پولیس نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
گزشتہ ہفتہ کی شب دیر گئے مظاہرین کی طرف سے پیش قدمی کرنے کے بعد پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں شروع ہوئی تھیں اور پولیس نے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلا کر ان لوگوں کی پیش قدمی کو روکا۔
جھڑپوں کا یہ سلسلہ اتوار کو دن بھر جاری رہا اور اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور لگ بھگ 500 زخمی ہوئے۔
مظاہرین کی طرف سے بھی پولیس پر پتھراؤ اور غلیلوں سے انھیں نشانہ بنایا جاتا رہا۔
لیکن اتوار کی شام سے حالات میں کشیدگی تو موجود تھی لیکن مظاہرین کی پیش قدمی کا سلسلہ رک گیا اور رات بھر کسی بھی طرح کا تصادم دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔