پاکستان تحریک انصاف کا ’آزادی مارچ‘ اور پاکستان عوامی تحریک کا 'انقلاب مارچ' دارالحکومت اسلام آباد کے حساس علاقے 'ریڈ زون' میں داخل ہوگئے ہیں اور دونوں جلوسوں کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیرِاعظم میاں نواز شریف بدھ کی شام تک مستعفی نہ ہوئے تو وہ اور ان کے کارکن وزیرِاعظم ہاؤس جائیں گے۔
لیکن عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے کہا ہے کہ ان کے کارکن کسی عمارت پر قبضہ نہیں کریں گے اور حکومت کے مستعفی ہونے اور اسمبلیوں کی تحلیل تک شاہراہِ دستور پر اپنا پرامن دھرنا جاری رکھیں گے۔
دریں اثنا پاکستانی فوج کے ترجمان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ریڈ زون' میں موجود عمارتیں ریاست کی علامت ہیں جن کے تقدس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔
فوجی ترجمان نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ مسائل کا حل بامعنی مذاکرات کے ذریعے نکالیں۔
اس سے قبل جب دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے 'ریڈ زون' میں داخل ہونے کی کوشش کی تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی اور دونوں جلوس انتظامیہ کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں ہٹا کر بآسانی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچ گئے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کے مطابق جلوسوں میں خواتین اور بچوں کی موجودگی کے باعث حکومت نے مظاہرین کو طاقت کے ذریعے نہ روکنے کا فیصلہ کیا ہے اور انہیں 'ریڈ زون' میں داخل ہونے دیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک ہنگامی نیوز کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ’ریڈزون‘ کی سکیورٹی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے۔
’’حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد کے ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کر دی جائے۔۔۔۔ اس کا کسی طرح سے سیاسی کارروائی سے تعلق نہیں ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ’ریڈ زون‘ میں داخل ہونے کے اعلان کے تناظر میں منگل کی صبح ہی سے سکیورٹی سخت کر دی گئی تھی۔
فوج اس کھیل کے پیچھے نہیں ہے
اپنی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ موجودہ سیاسی کشیدگی کی صورت حال میں فوج کسی طور ملوث نہیں ہے۔
’’آپ کو یہ واضح طور پر یقین دلاتا ہوں کہ وہ پاکستان فوج کا کھیل نہیں ہے اور میں یہ پوری ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں۔ اگر کوئی کھیل رہا ہے، اُس کے پیچھے جو بھی ہے۔ پاکستان فوج اس کے پیچھے نہیں ہے۔‘‘
وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کی ملاقات
وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے درمیان منگل کی سہ پہر ایک اہم ملاقات ہوئی۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نے نثار نے بتایا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت سکیورٹی سے متعلق اُمور ایک اہم اجلاس ہوا۔
سیاسی رابطوں کی کوششیں
سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے حزب مخالف اور حکمران جماعت کے قانون سازوں نے عمران خان اور طاہرالقادری سے رابطوں کی کوشش کی لیکن یہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔
قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما خورشید شاہ کی قیادت میں منگل کی صبح دس اپوزیشن جماعتوں کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔
خورشید شاہ نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس خطرے کو ٹالنے کے لیے پل کا کام کریں۔
’’ہم نے اپنی مکمل حجت پوری کی ہے جتنے بھی ہماری دس جماعتوں کے رہنما ہیں جو پارلیمان میں یا پارلیمان کے باہر ہیں ہم نے طے کیا ہے کہ اب بھی ہم یہ بات چیت (کے راستے کو) ختم نہیں کرتے، ہم انتظار کریں گے کہ عمران خان کی طرف سے اور طاہر القادری کی طرف سے پیغام آ جائے، ہم جتنی بھی جماعتیں ہیں جو حکومت کا حصہ نہیں ہے ہم ان سے بات کرنے پر تیار ہیں۔‘‘
خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے سیاسی جماعتوں کی ضمانت پر عمران خان کو اس ’آزادی مارچ‘ کی اجازت دی تھی۔
’’ان کی طرف سے جو آگے بڑھنے کی بات ہے، سچی بات ہے ہم یہ محسوس کرتے ہیں کے ہماری گارنٹی پر اس حکومت نے ان کو آنے کا موقع دیا، اگر وہ ’ریڈ زون‘ کو کراس کرتے ہیں تو یہ قابل افسوس بات ہو گی۔‘‘
حکومت کا موقف
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ریڈ زون میں داخلے سے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص پر منفی اثر پڑے گا۔
’’ملک کے اندر اور بین الااقوامی برادری کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ حکومت بلیک میل ہو گئی ہے۔۔۔ یہ روایت کوئی اچھی نہیں ہو گی۔ ہماری انا کا مسئلہ نہیں ہے یہ ملک کی انا کا مسئلہ ہے یہ پاکستان کی انا کا مسئلہ ہے یہ ریاست کی انا کا مسئلہ ہے۔۔۔ ہم آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔۔۔ وطن کی انا پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔‘‘
عمران خان اور طاہرالقادری نے اسلام آباد میں دو مختلف مقامات پر گزشتہ پانچ روز سے دھرنا دے رکھا ہے۔
تحریک انصاف اور عوامی تحریک وزیراعظمٰ کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن پارلیمان میں موجود بیشتر جماعتیں اُن کے اس مطالبے سے اتفاق نہیں کرتیں۔
حکومت نے بھی عمران خان سے رابطے کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہے جس کے رکن سعد رفیق نے کہا کہ اُنھوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین سے رابطے کی بھرپور کوشش کی لیکن اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔
’’شاہ محمود قریشی سے منت کی، کہ رحم کریں اس ملک پر، ہم سے بات کریں اور مطالبے کریں جو آئین اور قانون کے دائرے میں ہیں۔ ہم سر کے بل چل کر آنے کو تیار ہیں۔‘‘
ریڈ زون کیا ہے؟
ریڈزون وہ علاقہ ہے جہاں غیر ملکی سفارت خانوں کے علاوہ، پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور وزیراعظم کے علاوہ سپریم کورٹ، الیکشن کمیشن سمیت اہم سرکاری عمارتیں ہیں۔
حکومت نے ان دھرنوں کے تناظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 35 ہزار سے زائد اہلکار اسلام آباد اور اس کے اردگرد تعینات کر رکھے ہیں۔
ریڈ زون مکمل طور پر سیل ہے اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو اس علاقے میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔