پاکستان میں کشیدہ سیاسی ماحول میں منگل کو پارلیمان کے ہنگامی مشترکہ اجلاس میں مختلف سیاسی جماعتوں نے حکومت کو یہ یقین دہانی کروائی کے پارلیمنٹ اُن کے ساتھ کھڑی ہے۔
اُدھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ اُن کی جماعت کے اراکین بدھ کو آخری مرتبہ پارلیمان میں جائیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے قانون سازوں کو بتایا کہ احتجاج کرنے والی جماعتوں کا گروہ آزادی اظہار رائے اور جمہوریت کا سہارا لے کر اس ایوان کے دروازے پر پہنچ گیا ہے۔
’’یہ نا احتجاج ہے نا دھرنا ہے، نا سیاسی اجتماع ہے۔ یہ پاکستان کے خلاف بغاوت ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ایک ’لشکر کشی ہوئی ہے‘ جس کے خلاف قوم اور پارلیمان متحد ہے۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ پولیس غیر مسلح ہے تاہم اُن کے بقول احتجاج کرنے والوں میں سے بعض کے پاس پستول ہیں۔
’’یہاں ڈیڑھ، پونے دو ہزار لوگ جو اس میں بیٹھے ہیں وہ تربیت یافتہ دہشت گرد ہیں، وہ ایک عسکری گروپ سے آئے ہیں۔۔۔ کوئی مناسب وقت ہو تو وہ بھی اس ایوان کے سامنے رکھوں گا۔‘‘
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ’ہتھوڑوں اور کلہاڑیوں، اور ایسے ڈنڈے جن پر کیلیں لگی ہیں‘ اُس سے لیس ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کے بقول اب تک 100 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔
حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ’’آپ (وزیراعظم) کے ساتھ پارلیمنٹ کھڑی ہے، ملک کا سب سے بڑا مقتدر ایوان آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔‘‘
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اگر آپ استعفٰی نہیں دیتے تو آپ کو کوئی استعفے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
’’اس میں ہم سارے کے سارے اراکین پارلیمان۔۔۔ اس مرحلے پر آپ کے ساتھ تعاون پر تیار ہیں۔‘‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کو پارلیمان کے سامنے دھرنا دیئے ان مظاہرین کو نکالنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیئں۔
’’ان جتھوں کو جنہوں نے جگہ جگہ یہ دھرنے دیئے ہوئے ہیں۔ آج کے بعد حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے آئین اور قانون کے تحت کہ اسلام آباد کو ان سے پاک کر دیا جائے۔‘‘
پارلیمان کا مشترکہ اجلاس اب بدھ کو دوبارہ ہو گا، پہلے روز کے اجلاس کے خاتمے پر احتجاج کرنے والی جماعت
نے کہا کہ اُن کی جماعت کی ’کور کمیٹی‘ نے یہ فیصلہ کیا کہ بدھ کو اُن کے اراکین، پارلیمان میں اُٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کے لیے جائیں گے۔
’’میں نے شاہ محمود قریشی سے کہا کہ آپ کل اسمبلی میں جائیں کہ انھوں نے ہمارے بارے میں باتیں کی ہیں اُن کا ’پوائنٹ بائی پوائنٹ‘ جواب دیں۔‘‘
تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے منگل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
وہ عمران خان کے قریبی ساتھی تھے لیکن وزیراعظم ہاؤس کی طرف پیش قدمی کے اعلان پر اُنھوں نے اپنی پارٹی قیادت سے اختلاف کیا تھا۔
جس کے بعد عمران خان نے کہا تھا کہ اُن کے اور جاوید ہاشمی کے راستے الگ ہو گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنان دو ہفتوں سے زائد عرصے سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنا دیے ہوئے ہیں اور اس دوران وزیراعظم ہاؤس کی طرف پیش قدمی کی کوشش کرتے ہوئے ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔