پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے منگل کو وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی جس میں سلامتی سے متعلق اُمور کے علاوہ پارلیمنٹ کے سامنے جاری سیاسی دھرنوں سے پیدا ہونے والی صورت حال پر بھی غور کیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ موجودہ مسئلے کو ملک کے مفاد میں جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے قائد طاہر القادری پارلیمان کے سامنے اپنے حامیوں اور کارکنوں کے ہمراہ دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔
احتجاج کرنے والی دونوں ہی جماعتیں وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔
جب کہ طاہر القادری نے تو پیر کی شام اپنے خطاب میں حکومت کو ’48 گھنٹوں‘ کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ’نظام کے بستر کو لپیٹ‘ دیا جائے۔
اس صورت حال میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رابطوں میں بھی تیزی آئی ہے۔
حکومت کی طرف سے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ گورنر پنجاب چوہدری غلام سرور نے گورنر سندھ عشرت العباد سے ملاقات کی۔
حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان منگل کو ایک رابطہ بھی ہوا لیکن مذاکرات کی بحالی کے بارے میں دونوں جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
سیاسی کشیدگی کے حل کے لیے متحدہ قومی موومنٹ ’ایم کیو ایم‘ کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے منگل کو مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی۔
ملاقات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’ایم کیو ایم سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ اُن فریقوں کو بتائیں کہ اُن کے اتحاج کو ریکارڈ کر لیا گیا ۔۔۔۔ لیکن یہ نہیں کہ میرے احتجاج کی بنیاد پر حکومت جائے اور مجھے حکومت ملے۔ یہ جو روایت ہے اسے ہمیں ترک کرنا چاہیئے۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اب مزید سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں۔
’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمیں ان مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں جانا چاہیئے۔۔۔۔ ایک تجویز یہ بھی آئی تھی کہ جو مطالبات ہیں اُن کی اگر ترتیب کو بھی تبدل کر دیا جائے تو شاید اُس میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں۔‘‘
سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی منگل کی شب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید سے ٹیلی فون پر الگ الگ رابطہ کر کے اُن سے سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔
عمران خان مئی 2013ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل تین رکنی کمیشن کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس سے پہلے ہی درخواست کر چکی ہے۔
تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ کمیشن ایک مہینے میں اپنی تحقیقات مکمل کرے اور اس دوران وزیراعظم 30 روز کے لیے مستعفی ہو جائیں تاکہ وہ اُن کے بقول تفتیشی عمل پر اثر انداز نا ہو سکیں۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم کسی صورت استعفی نہیں دیں گے۔