حکام کے مطابق 24 فروری کو چمن میں پاکستان کی افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں باڑ اکھارنے کے تنازع پر پاکستان کی فوج اور افغانستان کے طالبان کے درمیان اسپن بولدک کے ایک گاؤں میں جھڑپ ہوئی تھی اور دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ کیا گیا تھا۔
مبینہ طور پر لاپتا ہونے والے حفیظ بلوچ کا تعلق خضدار کے پسماندہ علاقے باغبانہ سے ہے۔انہوں خضدار سے ہی اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ بعد ازاں فزکس میں ایم فل کرنے کے لیے اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 2021 کے دوران خواتین پر تشدد کے 129 واقعات سامنے آئے جب کہ غیرت کے نام پر قتل ہونے والے افراد کی تعداد 118 بتائی گئی ہے۔
ضلعی حکام کا کہنا ہے کہ پولیس نے ڈاکٹروں کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکا کیا جس پر انہوں نے پولیس اہل کاروں پر دھاوا بول کر 6 پولیس اہل کاروں کو زخمی کر دیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق 2014 سے دسمبر 2019 تک 194 لاپتا افراد بازیاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔
بلوچستان میں قلات کے 70 سالہ محمد بخش مری بلوچ ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ایسی بیش قیمت اور دیدہ زیب چھڑیاں بنانے کا فن جاری رکھے ہوئے ہیں جو ماضی میں قبائل کے سردار استعمال کرتے تھے۔ مارکیٹ میں ان چھڑیوں کی قیمت 60 ہزار روپے تک ہے۔ مزیدجانیے کوئٹہ سے مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ریکوڈک معاہدے کو خفیہ نہیں رکھا گیا اس پر صوبے کے تمام منتخب نمائندوں کو بریفنگ دی گئی ہے۔
بلوچستان کے ضلع ژوب میں ایک غار سے چار افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ لیویز حکام کا کہنا ہے کہ چاروں افراد کی لاشیں دو ماہ پرانی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے جمعرات کو صوبائی وزرا کے ہمراہ مذاکرات کے لیے دھرنا عمائدین سے ملاقات کی۔ حکومت کی جانب سے مطالبات کی منظوری کی یقین دہانی کے بعد مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان لڑکیوں کو پہلے نوکری کا جھانسہ دیتا اور بعد میں نشہ آوار مواد دے کر ان کی نازیبا ویڈیوز بنا کر تشدد کرنے میں ملوث تھے۔
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مقامی شہریوں کا دھرنا تیسرے ہفتے بھی جاری ہے۔ ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی جانب سے احتجاج میں کوسٹل ہائی وے بھی بلاک کی گئی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ایک دو مطالبات جزوی طور پر تو پورے کیے گئے ہیں۔ باقی مطالبات اب تک پورے نہیں ہوئے۔ مزید مرتضیٰ زہری کی رپورٹ میں۔
منتظمین کا دعویٰ ہے کہ پیر کو 'گوادر کو حق دو' کے نام سے نکالی گئی اس ریلی میں 15 ہزار کے لگ بھگ خواتین اور بچوں نے شرکت کی۔
ہفتے کی شب گورنر بلوچستان نے کریمنل لا بلوچستان ترمیمی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت ریلیوں، جلسوں اور دھرنوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
یہ احتجاج گوادر کے عوام کی جانب سے شروع کی گئی 'گوادر کو حق دو' تحریک کے تحت کیا جا رہا ہے اور گزشتہ بارہ روز سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج کی صدارت سیاسی و سماجی رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کر رہے ہیں۔
طلبہ تنظیموں کی کال پر پیر کو کوئٹہ کے اکثر تعلیمی اداروں کو بند کیا گیا جو بدستور منگل کو بھی بند ہیں۔ جامعہ بلوچستان، بیوٹمز اور سٹی کیمپس میں تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں۔
طلبہ تنظیموں نے اپنے ساتھیوں کی گمشدگی کے خلاف یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے رکھا اور مرکزی دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ طلبہ تنظیموں نے احتجاجاً امتحانات کا بھی بائیکاٹ کر دیا ہے۔
پیدل سفر کرنے والے افراد کے لیے روزانہ 8 گھنٹے سرحد کھولی جائے گی جب کہ تجارتی سرگرمیاں 24 گھنٹے جاری رہیں گی۔
جام کمال نے اپنے استعفے میں لکھا کہ وہ 24 اکتوبر کو آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہو رہے ہیں۔
مزید لوڈ کریں