بلوچستان کے ضلع کیچ کے شہری علاقے تربت میں کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ کرنے والی شاری بلوچ کے والد کے ہاں تعزیت کے لیے عزیز رشتہ دار آ رہے ہیں۔ اُن کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ شاری بلوچ ایسا قدم اُٹھا سکتی ہے۔
ان کے ایک قریبی رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شاری بلوچ ایک تعلیم یافتہ اور سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔
ان کے بقول وہ بطور استاد سرکاری ملازمت بھی کر رہی تھیں، تاہم خاندان کے کسی بھی فرد کو شائبہ تک نہیں تھا کہ وہ عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو چکی ہیں۔
تربت کے ایک مقامی صحافی اسد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گو کہ شاری بلوچ کے والد یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ شادی کے بعد سے ان کا شاری بلوچ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے مگر پھر بھی لوگ ان کے گھر تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔
اسد بلوچ کے بقول شاری بلوچ کی لاش کل تک ان کے آبائی علاقے پہنچائے جانے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی بم دھماکے میں ملوث خاتون شاری بلوچ ، بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ تھیں اورتربت کے ایک اسکول میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ ان کے دو بچے ہیں اور قریبی رشتے دار اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں یا رہ چکے ہیں۔
ان کے بارے میں کم ہی لوگ جانتے تھے کہ وہ علیحدگی پسند تحریک میں اس حد تک آگے بڑھ چکی ہیں کہ خود کش حملہ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گی۔
'خاندان والے اب بھی سکتے میں ہیں'
تربت میں مقیم شاری بلوچ کے چچا اور انسانی حقوق کے کارکن غنی پرواز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکام نے اب تک شاری بلوچ کی لاش خاندان کے حوالے نہیں کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خاندان کے افراد اب بھی سکتے میں ہیں اور وہ شاری کی جانب سے ایسے کسی فعل کی توقع بھی نہیں کررہے تھے۔ لیکن انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ بلوچ قوم پرستوں سے کسی حد تک متاثر ضرور تھیں لیکن انہوں نے کبھی کھل کر اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔
شاری بلوچ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کی چھ بہنیں تھیں اور انہوں نے حال ہی میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے ایم ایڈ کی ڈگری مکمل کی تھی۔
کراچی میں قانون نافذ کرنےو الے اداروں کا شاری بلوچ کی مبینہ رہائش گاہ پر چھاپہ
تحقیقاتی اداروں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات گلستان جوہر میں واقع ایک فلیٹ پر چھاپہ مار کر تلاشی لی اور بعد میں اسے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پولیس سندھ نے سیل کر دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ فلیٹ شاری بلوچ نے کرائے پر لے رکھا تھا اور وہ اور ان کا شوہر اکثر اس فلیٹ میں آتے جاتے رہتے تھے لیکن انہوں نے یہاں مستقل رہائش نہیں رکھی تھی۔ ان کا پڑوسیوں کے ساتھ بھی بہت کم ملنا جُلنا تھا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ گھر تین سے چار سال قبل کرائے پر لیا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق کراچی میں ہی کے ڈی اے اسکیم میں واقع ایک گھر بھی سیل کر دیا گیا ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ شاری بلوچ کے والد کی ملکیت ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گھر سے کچھ اشیا بھی قبضے میں لی گئی ہیں جب کہ اسی گھر میں چند ہفتے قبل خاتون بمبار کی بہن کی شادی بھی ہوئی تھی۔
لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل
ادھر سندھ فرانزک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری نے جامعہ کراچی میں خودکُش بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل کر لیا ہے۔
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے ترجمان کے مطابق لیبارٹری کوسانحہ والے دن کی شب پولیس کی جانب سے چار لاشوں کے نمونے موصول ہوئے تھے۔ ان میں سے تین چینی اساتذہ اور ایک پاکستانی ڈرائیور کے نمونے شامل تھے۔
ترجمان کے مطابق دھماکے میں ہلاک ہونےو الے چینی اساتذہ کے رشتہ داروں کے نمونے دستیاب نہیں تھے اس لیے ان افراد کے زیرِِ استعمال سامان سے نمونے حاصل کیے گیے تاکہ نتائج کی تیاری بروقت کی جاسکے۔ جب کہ پاکستانی ڈرائیور خالد کے رشتہ داروں سے ریفرنس نمونہ حاصل کیا گیاتھا۔
دہشت گرد حملے کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں قرارداد منظور
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کراچی یونیورسٹی میں چینی لینگوئج سینٹر کی گاڑی پر حملے کے خلاف مشترکہ قرار داد منظور کر گئی ہے۔
ارکان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جان سے جانے والوں اور سیکیورٹی فورسز کو سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اظہار کیا اور حل طلب امور کو بات چیت اور افہام تفہیم کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی مشیر داخلہ بلوچستان ضیا اللہ لانگو نے کہا کہ کراچی واقعہ کے ایک پہلو کو دیکھا جارہا ہے جس میں ایک خاتون نے یہ عمل کیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عسکریت پسند تنظیموں سے بار بار مذاکرات کی کوشش کی اور نوابزادہ شاہ زین بگٹی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جس خاتون نے دھماکہ کیا تھا اس کو ہم دہشت گرد سمجھتے ہیں اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے خواتین کو برین واش کرنا افسوس کی بات ہے۔
یاد رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں گزشتہ منگل کو ایک خود کش حملے میں ایک ایسی وین کو نشانہ بنایا گیا جو چین سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو لے کر چینی تعلیم کے مرکز کنفیوشس سینٹر جا رہی تھی۔ اس حملے کی نہ صرف پاکستان کی حکومت اور دیگر سیاسی و سماجی حلقوں نے مذمت کی بلکہ چین نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی۔ گزشتہ روز سلامتی کونسل کی طرف سے بھی مذمتی بیان جاری کیا گیا۔
سلامتی کونسل کے اراکین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ اس بزدلانہ دہشتگرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں جس کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے۔
کونسل کے اراکین نے اپنے بیان میں دہشت گردی کے واقعے میں مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کی حکومتوں سے بھی تعزیت کی۔
پاکستان کے اندر سیاسی قیادت جس میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں، خاتون بمبار کی جانب سے کیے گئے اس خود کش حملے کی مذمت کر رہے ہیں اور اس کو ایک خطرناک رجحان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے ثنا اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے واقعہ کو بہت تشویش ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی جانب سے تشدد کا راستہ اپنانا جمہوری جدوجہد کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔
بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر انوار الحق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ صرف صوبے یا پاکستان کی حد تک ہی تشویش ناک نہیں بلکہ اس کا دائرہ اور اثرات خطے تک پھیل سکتے ہیں اور اس سے کئی دیگر قوم پرست، علاقائی و مذہبی تحریکوں کو بھی شہ مل سکتی ہے۔